كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
(اس معاملہ کو بھی ویسا ہی سمجھ) جس طرح (جنگ بدر میں) یہ بات ہوئی تھی کہ تیرے پروردگار نے سچائی کے ساتھ تجھے تیرے گھر سے نکالا تھا اور یہ واقعہ ہے کہ مومنوں کا ایک گروہ اس بات سے ناخوش تھا۔
ف 5 یہاں غزوہ بد ر کے لیے روانگی کے واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو 2 ھ میں پیش آیا، مختصر واقعہ یہ ہے کہ نبی (ﷺ) کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان كی سرکردگی میں شام سے مکہ جارہا ہے اور مدینہ کے قریب راستہ پر پہنچ چکا ہے۔ آپ (ﷺ) مسلمانوں كی مختصر سی جمعیت جو تین سو سے کچھ اوپر تھی لے کر قافلہ کے تعاقب کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ابو سفیان کو آنحضرت (ﷺ) کے نکلنے کی اطلاع ہوگئی، اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعہ مکہ اطلاع بھیج دی اور خود احتیاطً اصل رستہ چھوڑ کر ساحلی اختیار کرلیا۔ مکہ میں جب یہ خبر پہنچتی تو ابو جہل ایک بڑا مسلح لشکر لے کر قافلہ کی حفاظت کے لیے روانہ ہوگیا اور آکر بدر میں ڈیرے ڈال دیئے نبی (ﷺ) کو اطلاع ہوئی تو آپ (ﷺ) نے مسلمانوں کے سامنے ساری صو رتحال رکھ دی کہ ایک طرف تجارتی فافلہ ہے اور دوسری طرف قریش کالشکر ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ تمہیں دونوں میں سے ایک ضرور ملے گا۔ اس پر بعض صحابہ (رض) کو تردو ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ لشکر کی بجائے قافلہ کا تعاقب کیا جائے اس وقت حضرت ابو بكر (رض)، حضرت عمر (رض) حضرت مقداد (رض) اور حضرت سعد بن معاذ نے اطاعت کی تقریریں کیں، تب آپ (ﷺ) بدر کی طرف روانه هوئے۔اس سے یه بات بخوبی سمجھ میں آجاتی هے بعض صحابہ (رض) کی یہ کراہت مدینہ سے نکلنے کے وقت نہ تھی جیسا کہ بظاہر آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے لیکن مجموعی واقعہ کی ایک قرار دیکر اس کراہت کو خروج سے متصل کردیا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ’’ هُمُ كَٰارِهُونَ ‘‘ حال مقدرہ ہو۔ پس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح اس وقت مدینے سے نکلنے سے ہچکچا نا اور خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرانا صحیح ثابت نہ ہوا اور بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مال غنیمت ہاتھ لگا اسی طرح آج بھی انہیں مال غنیمت کی تقسیم میں ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف سے جو حصہ ملے اسے قبول کرلینا چاہیے اس کا نتیجہ ان کے حق میں بہتر رہے گا ( کبیر، ابن کثیر) شاہ صا حب بھی لکھتے ہیں ’’یعنی غنیمت کا یہ جھگڑا بھی ویسا ہی ہے جیساکہ نکلتے وقت عقل کی تد بیر کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی ٹھہری جو رسول (ﷺ) نے فرمایا تو ہر کام میں یہی اختیار کرو کہ حکم برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو، ( مو ضح)