وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور (مسلمانو) جب قرآن پڑھا جائے تو جی لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ اللہ کی مہربانی کے مستحق ثابت ہو۔
ف 7 قرآن کی عظمت بیان کرنے کے بعد اب اس سے استفاده کے آداب کی طرف اشارہ فرمایاجا رہا ہے کہ اسکی قرات کے وقت استماع اور انصات ہونا ضروری ہے یعنی خامو شی اور توجہ سے سنا جائے، مروی ہے کہ مشرکین مکہ قرآن کی قرأت کے وقت شورو غل کرتے اور کا نوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( کبیر) ویسے یہ حکم عام ہے کہ جب قرآن کی قرات ہو تو وہ دھیان سے سنا جائے اور باتیں نہ کی جائیں ( از مو ضح) بعض نے اس آیت سے استد ل کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ فاتحہ کی قرات بھی ممنوع ہے کیونکہ ’’ إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ‘‘کا حکم عام ہے جو مقتدی، امام، نما زی غیر نمازی سب کو شامل ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز میں قرات کے متعلق اس آیت کو لیا جائے تو یہ آیت اپنے ما قبل سے بے ربط ہو کر رہ جاتی ہے ما قبل کی آیات میں مشرکین سے خطاب چلا آرہا ہے اس لیے نظم قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں بھی مشرکین ہی مخاطب ہوں اور پھر اس آیت کے مکی ہونے سے اس کی اور بھی تائید ہوجاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت کو عام بھی مان لیاجائے تب بھی اصول فقہ کی روسے حدیث(لاصَلَاة إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی) سے اس كی تخصیص ہو سکتی ہے لہذا یه آیت مقتدی کے لیئے سورۃ فاتحہ کی قرات سے کسی طرح مانع نہیں ہو سکتی۔ ( از کبیر )