وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوتا ہے کہ تم ان کے پاس کوئی نشانی لے کر نہ جاؤ (جیسی نشانیوں کی وہ فرمائشیں کیا کرتے ہیں) تو کہتے ہیں کیوں کوئی نشانی پسند کر کے نہ چن لی (یعنی کیوں اپنے جی سے نہ بنا لی) تم کہہ دو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو کچھ میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرتا ہوں (میرے ارادے اور پسند کو اس میں کیا دخل؟) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے سرمایہ دلائل ہے اور ان سب کے لیے جو یقین رکھنے والے ہیں ہدایت اور رحمت۔
ف 5 اس آیت میں شیاطین کے بھائیوں کی ضلالت اور عناد کی یک مثال بیان کی ہے یعنی پیغمبر سے ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ کوئیاٰیۃ( معجزہ) اپنے پاس سے ہی لے آؤ ( کبیر) ف 6 یعنی میں تو وحی الٰہی کا تابع ہوں اور اپنی طرف سے کوئی چیز بنا کر پیش نہیں کرسکتا، اس میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم ہی ایک بڑ امعجزہ ہے پھر یہاں قرآن کے تین بڑے اوصاف بیان فرمائے ہیں ،( کبیر )