سورة الاعراف - آیت 187

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) لوگ تم سے (قیامت کے) آنے والے وقت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب قرار پائے گا؟ تم کہہ دو اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہے، وہی ہے جو اس بات کو اس کے وقت پر نمایاں کرنے و الا ہے۔ وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں واقع ہوگا، وہ تم پر نہیں آئے گا مگر اچانک۔ (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا تم اس کی کاوش میں لگے ہوئے ہو، تم کہو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف خدا ہی یہ ابت جانتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے انجان ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 14 تو حیدو نبوت اور قضا وقدر پر کلام کے بعد بعث ما بعد الموت پر گفتگو ہو رہی ہے کیونکہ قرآن میں یہ امور اربعہ اصول وکلیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ( رازی ) ف 1 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ زمین و آسمان اس کی دہشت سے کا نپتے ہیں یا یہ کہ کسی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل ( علیہ السلام) کو اس کے وقوع کا علم نہیں ہوسکتا۔ ( رازی) حدیث جبر یل میں آنحضرت (ﷺ) نے صرف اشراط ساعت بیان فرمائی ہیں اور دوسری روایات میں نزول عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آثار قیامت میں سے قرار دیا ہے مگر ان کے وقو ع کے بعد بھی قیامت اچانک اور دفعةً واقع نہیں ہوگی، ( کبیر) ف 2کہ قیامت کے وقوع کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے یہ لوگ آپ (ﷺ) سے باربار اس طرح پو چھتے ہیں ہیں جیسا کہ آپ (ﷺ) نے کرید اور جستجو کے بعد اس کا پورا پورا علم حاصل کرلیا ہے۔