سورة الاعراف - آیت 184

أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا؟ ان کے رفیق کو (یعنی پیغمبر اسلام کو جو انہی میں پیدا ہوا اور جس کی زندگی کی ہر بات ان کے سامنے ہے) کچھ دیوانگی تو ہیں لگ گئی ہے (کہ خواہ مخواہ ایک بات کے پیچھے پڑ کر سب کو اپنا دشمن بنا لے) وہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ (انکار و بدعملی کی پاداش سے) کھلے طور پر خبردار کردینے والا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 اوپر کی آیات میں ان کی غفلت اور اعراض پر تہدید تھی اب یہاں سے نبوت پر ان کے شبہات کی تردید ہو رہی ہے مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا بھی ہے کہ جن باتوں، توحیدوغیرہ ،کی طرف آنحضرت (ﷺ) دعوت دے رہے ہیں ان میں کون سی ایسی بات ہے جسے جنون سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا یہ یوں ہی آنحضرت (ﷺ) کی تر دید کے لیے اس قسم کی الزام طرازیاں کر رہے ہیں۔ قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں یہ روایت ملی ہے کہ نبی (ﷺ) ایک رات صفا پر چڑ ھے اور صبح تک قریش کے مختلف گھرانوں کا نام لے کرانہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے آخر ایک کافر کہنے لگا کہ تمہا را یہ ساتھی مجنون ہوگیا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر، ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں آنحضرت (ﷺ) کو ان کا ساتھی فرمایا اس لیے کہ آپ (ﷺ) ان میں رہتے تھے اور وہ آپ (ﷺ) کے حالات سے خوب واقف تھے۔ ( از مو ضح)