وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا (یعنی بالآخر ان کا ٹھکانا جہنم ہونے والا ہے) ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ وہ (عقل و حواس کا استعمال کھو کر) چارپایوں کی طرح ہوگئے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔
ف 10 لِجَهَنَّمَ میں لام عاقبت بھی ہوسکتا ہے یعنی اپنے حواس سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے انجام کار جہنم میں جائیں گے گو یا جہنم ہی کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے، اور لام غایت کا بھی ہوسکتا یعنی تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے علم اور قضا قدر ہمیں وہ جہنم ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں گو تشریعی طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور شریعت کا مکلف قرار دیا ہے جیسا کہ بہت سی احادیث’’ تقدیر ‘‘ میں مذکور ہے اور علما نے تقدیر اور جبرمیں فرق کی وضاحت کی ہے۔ ف 1 کیونکہ انعام ( چوپائے) کی نقل و حرکت تمام تر اس کے طبعی تقاضے اور تسخیری غایت کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس کفار اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے خالق کی نافرما کر رہے ہیں، ( ابن کثیر) ف2 یعنی خواب غفلت میں پڑے ہوئے هیں اور حیات بعد الموت سے بے فکر ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں خدا اور رسول (ﷺ) کو پہنچا ننا اور ان کے احکام کو سیکھنا ہر شخص پر فرض ہے اگر کوئی ایسا نہ کرے گا تو دوزخ میں جائے گا۔ ( مو ضح)