أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
یا کہو خدایا ! شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادوں نے کیا، ہم ان کی نسل میں بعد کو پیدا ہوئے (اور لاچار وہی چال چلے جس پر پہلو کو چلتے پایا) پھر کیا تو ہمیں اس بات کے لیے ہلاک کرے گا جو (ہم سے پہلے) جھوٹی راہ پر چلنے والوں نے کی تھی؟
ف 2 یا یہ عذار پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کی راہ پر چلتے رہے ہیں ہمارا قصور کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہ ہوگا، ( ابن کثیر۔ کبیر) ف 3 یعنی ہمارے آباؤ اجدادنے لہٰذا وہی مجرم ہیں مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے عذر كا وہاں کوئی موقع نہ ہوگا کیونکہ ابتدا ءًہر شخص سے توحید پر قائم رہنے کا عہد لیا گیا ہے اور پھر اس عہد کی یاددہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور كتابیں نازل فرمائی گئی ہیں۔( کذافی التفاسیر )