سورة الاعراف - آیت 163

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ خدا کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہوجاتے تھے، سب کے دن ان کی (مطلوبہ) مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آجاتیں مگر جس دن سبت نہ مناتے نہ آتیں، اس طرح ہم انہیں آزمائش میں ڈالتے تھے، بہ سبب اس نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف2اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ اس قریہ ( شہر) سے مراد ’’ایلۃ ‘‘( یا ایلات) ہے جو بحر قلزم کے ساحل پر مدین اور طور کے درمیان واقع ہے۔ ( کبیر) یہ شہر بحر قلزم کے اندر خلیج عقبہ میں اس جگہ واقع تھا جہاں اب اردن کی بندر گاہ عقبہ پائی جاتی ہے۔ اس کے قریب خلیج عقبہ ہی ہیں یہود یوں نے جو نئی بندر گاہ بنائی ہے اس کا نام نام انہوں نے ’’ایلات‘‘ ہی رکھا ہے تفہیم القرآن کے حاشیہ نمبر پر 122 لکھا ہے کہ بنی سرائیل کے زمانہ عروج میں یہ شہر بڑاہم تجارتی مرکز تھا۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے بحر قلزم کے جنگی وتجارتی بیڑے کا صدر مقام اسی شہر کو بنایا تھا ،۔ ( ج 2 ص 59) ف 3) فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے انہیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے باز رہیں مگر انہوں نے دریا کے کنا رے سے پانی کاٹ کر حوض تعمیر کرلیے، جب ہفتہ کے دن ان حوضوں میں مچھلیاں آجاتیں تو ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن پکڑ لیتے اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کارتکاب کرنے کے لیے حیلہ سازی بھی حرام ہے حدیث میں ہے(لَا تَرْتَكِبُوا مَا ارْتَكَبَتِ الْيَهُودُ ، فَتَسْتَحِلُّوا ‌مَحَارِمَ اللَّهِ بِأَدْنَى ‌الْحِيَلِ)کہ یہود کی طرح شریعت میں حیلے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت سمجھو۔ ( ابن کثیر) بائیبل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ سبت ‘‘کے دن ان کو مکمل طور پر کارو بار بند رکھنے کا حکم تھا مگر وہ اس کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے تھے۔ ف 4 یا پانی سے سر نکالے ہوئے آجاتیں، ف 5 یعنی ان کے فسق کی وجہ سے ان پر یہ سختی کی گئی تھی،۔