وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر، ہم تیری طرف لوٹ آئے، خدا نے فرمایا میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، پس میں ان لوگوں کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کے لیے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے۔
ف 7 یعنی میرا عذاب تو صرف ان کافروں اور نا فر مانوں کے لیے مخصوص ہے جنہیں ان کی نافرمانی پر سزا دینا چاہتا هوں کیونکہ عذاب دینا میری صفات میں سے نہیں ہے بلکہ وہ محض میرا ایک فعل ہے جو صفت عدل کے تقا ضے میں ظاہر ہوتا ہے۔ میری صفت اور نظام کائنات میں اصل چیز رحمت ہے جس سے کائنات کی ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے دعا کی (اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا)۔ اس پر آپ (ﷺ) نے فرمایا(لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا) کہ تو نے اللہ تعالیٰ کی رحمت واسع کو محددود کردیا( ابن کثیر) اگر اللہ تعالیٰ کے غضب کی طرح اس کی رحمت بھی خاص نیکو کاروں کے لیے ہوتی اور کفر و نافرمانی پر فو را مو اخذ ه ہوتا تو روئے زمین پر كسی چلنے والے كو نه چھوڑ تا۔ (فاطر :45) ف 8 یعنی جوان صفات سے متصف ہو نگے اور وہ امت محمد (ﷺ) ہے۔ ( ابن کثیر) ف 9 دوسرے ارکان و فرائض کو چھوڑ کر خاص طو پر زکواۃ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہود یوں میں مال کی محبت پائی جاتی تھی اور اس بنا پر وہ جتنی کوتاہی ادائے زکوٰۃ میں کرتے تھے کوئی اور فریضہ کرنے میں نہ کرتے تھے۔ ف 10 یہ آیت تمام احکام شریعت پر حاوی ہے ۔تقویٰ،زکوٰۃ( حقوق مالی) الصلوۃ ( حقوق بدنی) اور ایمان میں ہر قسم کی آفت آجاتی ہے، ( رازی) یہاں تک حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) كی دعا کا جواب ختم ہوگیا، اب اگلی آیت سے موقع کی منا سبت سے یہود ونصاری ٰ کو نبی (ﷺ) کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ دنیا و آخرت میں رحمت الہیٰ کے حصول کے لیے مندر جہ بالا صفات کے علاوہ نبی (ﷺ) کی پیروی بھی ضروری۔ ہے ( کبیر )