سورة الاعراف - آیت 148

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر ایسا ہوا کہ موسیٰ کی قوم نے اس کے (پہاڑ پر) چلے جانے کے بعد اپنے زیور کی چیزوں سے (یعنی زیور کی چیزیں گلا کر) ایک بچھڑے کا دھڑ بنایا جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور اسے (پرستش کے لیے) اختیار کرلیا۔ (افسوس ان کی عقلوں پر) کیا انہوں نے اتنی (موٹی سی) بات بھی نہ سمجھی کہ نہ تو وہ ان سے بات کرتا ہے۔ نہ کسی طرح کی رہنمائی کرسکتا ہے؟ وہ اسے لے بیٹھے اور وہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 8 یہی قصہ سورۃ طهٰ میں بھی بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرئیل کے پاس قبطیوں کے زیورات تھے جنہیں وہ مصر سے نکلتے وقت اپنے ساتھ لے آئے تھے، جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) طور پر تشریف لے گئے تو ان میں سے ایک شخص سامری نے ان سے یہ زیورات لے لیے اور انہیں آگ میں گلا کر بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا اس آیت میں اس مجسمہ كے بنانے کو خود بنی اسرائیل کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ سامری نے ان کی اجازت اور رضامندی سے بنایا تھا اور وہ اپنے لیے اس قسم ایک معبود کی خواہش رکھتے تھے ( ابن کثیر، کبیر) مفسرین (رح) کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا بچھڑا واقعی گوشت پوست اور خون کا بن گیا تھا۔ اوراس میں جان پڑگئی تھی یا وہ محض ایک مجسمہ رہا جس میں ہوا داخل ہوتی یا داخل کی جاتی تو اس سے بچھڑے کی سی آواز نکلتی تھی؟ جو مفسرین اس کے واقعی جاندار بچھڑ اہونے کے قائل ہیں وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) کے پاس گھوڑے پرسوا ہو کر آئے سامری نے انھیں دیکھ لیا او ان کے گھوڑے کے پاؤں تلے کی کچھ مٹی لے لی اور انہوں نے آیت سورۃ طهٰİ‌فَقَبَضۡتُ قَبۡضَةٗ مِّنۡ أَثَرِ ٱلرَّسُولِĬ ۔ کے یهی معنی کیے ہیں چنانچہ اس مٹی کو جب انہوں نے بچھڑے کے اس مجسمہ پر ڈالا تو وہ سچ مچ کا بچھڑا بن گیا لیکن یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے اس لیے علمانے کوئی قطعی بات کہنے سے احتراز کیا۔ ( ابن کثیر) نیز دیکھئے سورۃ طهٰ آیت 88۔96) ف 9 پھر و ه خدا کیسے ہوسکتا ہے ؟ اگر بالفرض اس میں جان بھی پڑگئی ہے تو وہ ایک حیوان عاجز ہے معلوم ہوا کہ الٰه کے لیے متکلم اور ہادی ہونا ضروری ہے۔ متکلم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صاحب امرونہی ہو اور ہادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہدایت پر قدرت ہو۔ رازی )