فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ
پس ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیوں کے دل اور جوئیں (١) اور مینڈک اور لہو کہ یہ سب الگ الگ نشانیاں تھیں، اس پر بھی انہوں نے سرکشی کی اور ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا۔
ف 2 یعنی جب وہ اپنی سرکشی پر جم گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کچھ سختیاں نازل ہونا شروع ہوئیں جو آخر کار ہلاکت اور غرقابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں، ٱلطُّوفَانَ یعنی اسمان سے موسلا دھا بارش اور دریاؤں میں سخت طغیانی ٱلۡجَرَادَ ٹڈی جوان کی فصلوں کوچٹ کرگئی ٱلۡقُمَّلَ جوئیں چچڑیاں، چھوٹے کالے کیڑے پسو وغیرہ سب پر قمل کا لفظ پولا جاسکتا ہےم ٱلضَّفَادِعَ مینڈک اس کثرت سے کہ ہر چیز اور ہر برتن میں مینڈک ہی مینڈک نظر آتے ٱلدَّمَ خون الغرض ان آیات کو’’ مفصلات ‘‘فرمایا یعنی ایک کے بعد دوسری کچھ و قفہ سے آتی، یاجن کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا (وحیدی) شاہ صاحب فرماتے ہیں سب بلائیں ان پرایک ہفتہ کے فرق سے آئیں ( مو ضح) ف 3 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا مقابلہ فرعون سے چالیس برس رها اس بات پر کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے، اس نے نہ مانا ان کی بد عا سے بلائیں پڑیں دریائے نیل چڑھ گیا، کھیت اور باغ اور گھر اس سے تلف ہوئے ٹڈی سبز ی کھاگئی اسی طرح ہر چیز میں مینڈک پھیل گئے اور ہر پانی لہو بن گیا آخر ہرگز نہ مانا ( مو ضح)