يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ
یہ چاہتا ہے (اپنی ان طاقتوں سے کام لے کر) تمہیں ملک سے نکال باہر کرے (اور خود مالک بن بیٹھے) اب بتلاؤ تمہاری صلاح اس بارے میں کیا ہے ؟
ف 8 مَاذَا فی محل نصب مفعول لتا مرون بخذ ف الجارای بای شی تامرو ن ای تشیرون۔ یہ فرعون کی بات ہے جو اس نے معجزات دیکھنے کے بعد اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہی کہ کہیں ایسانہ ہو کہ موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کی آزادی کے بہانے مصر کے لوگوں کو یہاں سے نکال دے اور خود حکومت مصر پر قابض ہوجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیروں اور مشیروں نے فرعون سے یہ بات کہی ہو سورۃ شعرا کے سیا ق کلام کے پیش نظر علمانے یہ دونوں احتمال ذکرکئے ہیں مگر پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے علامہ زمحشری لکھتے ہیں کہ اصل میں یہ کلام فرعون کا ہے جیسا کہ سورت شعرا میں مذکور ہے ۔یہاں پر ’’ملا‘‘ کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے یعنی انہوں نے بھی بطور تبلیغ حق بات کہی اور اس کے بعد أَرۡجِهۡ کے ساتھ جو اب ’’ملا‘‘ کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے اور قوم کی طرف سے بھی ہر حال سورۃ شعر کے ساتھ اس قصہ کو ملا کر پڑھنے سے کوئی اشکال باقی نہیں رہتا( شوکانی، روح)،