قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
(اے پیغمبر ! یہ اللہ کا کلام ہے جو جبرایل نے اس کے حکم سے تمہارے دل میں اتارا ہے اور یہ اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے، جو اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے۔ اس میں انسان کے لیے ہدایت ہے اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (فلاح و کامیابی کی) بشارت
ف 1 :یہاں قرآن کے نزول کا محل آنحضرت(ﷺ) کے قلب مبارک یعنی دل کو قرار دیا ہے جس سے اشارہ ہے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو قرآن ایسے طریقہ سے پڑھا یا کہ آنحضرت (ﷺ)کے دل پر نقش ہوگیا۔ (رازی) ف 2: علمائے تفسیر نے اس کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چند یہودی علماء نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے’’ ابا القاسم‘‘ ہم آپ سے چند سولات کرتے ہیں اگر آپ نے ان کا جواب دے دیا تو ہم آپ کی اتباع اختیار کرلیں گے ان میں سے ایک یہ کہ اللہ کے نبی کی علامت بتایئے اور ہمیں یہ بھی بتایئے کہ اسرا ئیل یعنی یعقوب (علیہ السلام) نے کونسی چیز اپنے اوپر حرام کی تھی۔ آپ (ﷺ) نے ان سوالات کے صحیح صحیح جواب دیئے آخر میں کہنے لگے اچھا ہمیں یہ بتایئے کہ فرشتوں میں سے آپ کا دوست کون ہے ؟ یہ ہمارا آخری سوال ہے اس کے جواب پر یا تو ہم آپ سے مل جائیں گے یعنی ایمان لے آئیں گے اور یا آپ کو چھوڑ دیں گے۔، آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا میرے دوست جبریل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا ہے جبریل ہی اس کے دوست رہے ہیں یہودی علماء کہنے لگے تب تو ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اگر آپ کا دوست کوئی دوسرا فرشتہ ہوتا تو ہم آپ کی تصدیق کرتے اور آپ پر ایمان لے آتے فرمایا کیوں ؟ کہنے لگے یہ ہمارا دشمن ہے یہ حرب وقتال اور عذاب کا فرشتہ ہے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں بعض نے اس کے شان نزول میں حضرت عمر (رض) کا یہود سے مناظرہ ذکر کیا ہے جس میں یہود نے حضرت جبر یل (علیہ السلام) سے عداوت کا اظہار کیا اور حضرت عمر (رض) نے کہا( انتم اکفر من الحمیر) کہ تم گدھے سے بھی زیادہ ضدی اور سرکش ہو جبریل (علیہ السلام) اومیکایل (علیہ السلام) دونوں اللہ کے فرشتے ہیں اگر ایک سے دشمنی ہے تو سب سے دشمنی ہے اس پر یہ دو آیتیں نازل ہوئیں اور آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا:( لقد وافقک اللہ یاعمر) ان آیات کا مفہوم یہ ہی کہ کسی شخص کو جبریل (علیہ السلام) سے دشمنی رکھنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ جبریل (علیہ السلام) یہ قرآن ازخود نہیں بلکہ ہمارے پاس سے اور ہمارے حکم سے لائے ہیں اس لحاظ سے کہ وہ ہماری طرف سے مامور ہیں۔ (رازی۔ ابن کثیر)