سورة الاعراف - آیت 73

وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں صالح کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے۔ یہ خدا کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے۔ پس اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں جہاں چاہے چرے، اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچاؤ کہ (اس کی پاداش میں) عذاب جانکاہ تمہیں آپکڑے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 ان کا شمار بھی عرب کی قدیم ترین قوموں میں ہے عاد کے بعد سب سے مشہور قوم یہی تھی اس بنا پر بعض نے اسے عاد ثانیہ بھی لکھ دیا ہے ان کا مسکن مغربی عرب کا واہ علاقہ تھا جو آج بھی الحجر کے نام سے معروف ہے ( ابو الفد) مدینہ اور تبوک کے درمیان شام کو جا نے والی شاہراہ پر ایک شہر مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے یہی قوم ثمود کا صد مقام تھا، وہاں اب بھی اچھی خاصی تعداد میں وہ عمارتیں پائی جاتی ہیں جو ثمود نے پہاڑوں کر تراش کربنائی تھیں اور ان کے اردگر بڑا وسیع میدا ہے صحیح روایا میں ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو ہدایت فرمائی کہ اس علاقہ سے جلدی گزرجائیں کیونکہ یہ عذاب سے تباہ ہونے والی قوم کا علاقہ ہے اور مقام پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کنویں کی نشا ند دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنوا ہے جس سے حضرت صالح ( علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ اور مسلمان کو ہدایت فرمائی کہ اس کنویں کے سوا کسی دوسرے کنویں سے پانی نہ لیں۔ یہ کنواں اب بھی موجود ہے مگر خشک ہوچکا ہے نیز ایک کو ہستانی درے ( فج کو دکھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ یہی وہ جگہ ہے جس سے حضرت صالح ( علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پینے کے لیے آیا کرتی تھی (ابو الفدا) یہ جگہ اب بھی فج النقتہ (اونٹنی کا درہ) کے نام سے معروف ہے۔، بعض سیاحت ناموں میں مذکور ہے کہ جس پہاڑی سے وہ اونٹنی بطور معجزہ برآمد ہوئی تھی اس میں اب تک شگاف موجود ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس چٹان کا الکاتبہ لکھا ہے۔ (البدایہ) ف 5 حافظ بغوی نے ان کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے۔ صالح بن عبیدبن آصف بن ماشح بن عبید بن ثمود (معالم) بن عاثر بن ارم بن سام بن نوح اور ثمود کے دوبھائی اور تھے جن کے بام پر جد یس اور طسم دو قبیلے مشہور ہیں۔ ( ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ جزیرہ نمائے سینا کے مسرق کنارہ پر حضرت صالح ( علیہ السلام) کی قبر موجود ہے جو آج بھی زیارت گاہ خلائق ہے اور اسی جزیرہ میں جبل موسیٰ ( علیہ السلام) کے قریب صالح ( علیہ السلام) کی اونٹنی کا نقد معروف ہے۔ ف 6 اسے ناقتہ اللہ اللہ کی اونٹنی فرماکر اس کی عظمت در معجزانہ شاکی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بعض روایات میں جنہیں ابن جریر (رح) اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے ابو الطفیل سے نقل کیا ہے یہ قصہ مذکورہے کہ صالح ( علیہ السلام) کی قوم نے ان سے درخواست لی کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھا یا جائے اسے دیکھ کر ہم ایمان لے آئیں گے حضرت صالح ( علیہ السلام) ان پختہ عہد لے لیا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، دفعتا ایک ایک چٹان بھٹی اور اس میں سے ایک اونٹی نکل آئی چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو معجزانہ اور حضرت صالح ( علیہ السلام) کے صدق نبوت کی نشانی کے طور پر پیدا فرمایا تھا اس لیے وہ اللہ کی اونٹنی کہلائی اور قرآن نے متعدد مقامات پر اس اونٹنی کا جس انداز سے ذکر کیا ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ نا قہ معجزہ کی حیثیت رکھتی تھی بلکہ سورت شعرا میں یہاں تک بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صالح ( علیہ السلام) کی قوم نے ایک نشانی کا مطالبہ کیا اس کے جواب میں حضرت صالح ( علیہ السلام) نے ابن کے سامنے یہ اونٹنی پیش کی، ( دیکھئے رکو ع 8) ف 7 یعنی اگر اسے ستاؤ گے، مارو گے یا زخمی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہوجائے گا۔