سورة البقرة - آیت 94

قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ لوگ کہتے ہیں آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے) تم ان سے کہو اگر آخرت کا گھر خدا کے نزدیک صرف تمہارے ہی لیے ہے۔ اور تم اپنے اس اعتقاد میں سچے ہو تو (تمہیں دنیا کی جگہ آخرت کا طلب گار ہونا چاہیے۔ پس بے خوف ہو کر) موت کی آرزو کرو (حیات فانی کے پجاری نہ بنو)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

یعنی اگر تم اس دعوی میں سچے ہو کہ جنت میں تمہارے سوا کوئی نہیں جائے گا تو موت کی تمناکرو کیونکہ جس شخص کو یقین ہو کہ مرنے کے بعد فورا جنت میں پہنچ جائے گا وہ موت سے نہیں ڈرسکتا اب جریر اور بعض دوسرے علمائے تفسیر نے یہی معنی کیے ہیں اہل کتاب یعنی یہود کو دعوت مباہلہ دی گئی ہے کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو جو فریقین میں سے جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی دعا کرو۔ حافظ ابن کثیر نے انہی دوسرے معنی کو صحیح کہا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی نظیر سورۃ جمعہ کی آیات ( 6 تا 8) ہیں جن میں ان کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے۔ جیسا کہ سورت آل عمراب آیت 21) میں نجران کے عیسائیوں کی دعوت مباہلہ دی گئی ہے اور جس طرح عیسائی ڈر گئے تھے یہود بھی بد دعا سے ڈرگئے اور تمنی نہ کی معلوم ہوا کہ ہو جھوٹے ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی انہی دوسرے معنی کو تر جیح دی ہے۔