وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ
اور (دیکھو) ان (١) دونوں کے درمیان ایک اوٹ ہے اور اعراف پر (یعنی بلندی پر) کچھ لوگ ہیں جو (دونوں گروہوں میں سے) ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچان لیتے ہیں، ان لوگوں نے جنت والوں کو پکارا تم پر سلامتی ہو، وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے اس کے آرزو مند ہیں۔
ف 3 جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہوگی جیساکہ دوسری جگہ فرمایا فضرب بینھم بسور تو ان کے یعنی جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک دیوار بناد ی جائے گی ( حدید 13) اور فتح الر حمن میں ہے وآم مسی باعرف مست یعنی اس حجاب کو اعراف کہا جاتا ہے۔ ف 4 اعراف عرف کی جمع ہے اور لغت میں عرف بلند جگہ کو کہتے ہیں۔ لہذا اعراف سے مراد دیوار کی بلندیاں ہیں، جہاں ٹھہرنے والوں کو ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی لوگ نظر آئیں گے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں کہ یہ قول ابن عباس (رض) کا ہے وعلیہ الا کثرون (کبیر) ف 5 مثلا جنتیوں کے چہرے سفید اور نورانی ہوں گے۔ اور جہنمیوں کے کالے سیاہ جنتویں کے مو ضع وضو چمک رہے ہوں، اعراف میں کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ علامہ قرطبی نے دس اقوال نقل کئے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور قول جسے ئ جمہور مفسری ن نے کثرت روایات کی بنا پر ترجیح دی ہے کہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی اس لے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے اور نہ دوزخ میں ( ابن کثیر وغیرہ) ف 6 یعنی جنت میں جانے کی امید رکھتے ہو نگے اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے کہ انہیں آئندہ جنت نصیب ہوگی، دوسرے یہ کہ اعراف والے ان لوگوں کو پیاریں گے جن کا جنتی ہونا انہیں ان کی علامات دیکھ کر معلوم ہوجائے گا حالانکہ وہ ابھی حساب کتاب میں مشغول ہوں گے۔ ( ابن کثیر۔)