سورة الاعراف - آیت 31

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے اولاد آدم (علیہ السلام) کی ہر نماز کے وقت اپنی زینت (لباس) لے لیا کرو ، اور کھاؤ پیو ، اور فضول خرچ نہ کرو ، کہ وہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (ف ٢) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ....:زینت سے مراد لباس ہے، یعنی طواف اور نماز میں پردے کی چیزوں کو چھپانا فرض ہے، مرد کے لیے کمر سے گھٹنوں تک ( اور نماز میں اس کے ساتھ کندھے پر کچھ لباس کا ہونا) اور عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھوں کے سوا سارا بدن۔ باریک کپڑا جس سے بدن اور بال نظر آئیں معتبر نہیں، یعنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ (موضح) البتہ جمعہ کے دن خاص طور پر غسل، خوش بو اور اپنے بہترین لباس پہننے کا حکم دیا۔ جمعہ مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ سالانہ عیدیں ہیں، ان میں تو بدرجہ اولیٰ اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔ 2۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عورت بیت اﷲ کا طواف ننگی ہو کر کرتی تھی اور کہتی کہ کون مجھے طواف کے لیے کپڑا دے گا، اس کو وہ شرم گاہ پر ڈال لیتی اور کہتی : اَلْيَوْمَ يَبْدُوْ بَعْضُهٗ أَوْ كُلُّهٗ وَمَا بَدَا مِنْهُ فَلَا اُحِلُّهٗ ’’آج اس کا کچھ حصہ یا سارے کا سارا ظاہر ہو جائے گا اور اس میں سے جو ظاہر ہو گا میں اسے (دیکھنا کسی کے لیے) حلال قرار نہیں دیتی۔‘‘ [ مسلم، التفسیر، باب فی قولہ تعالٰی : ﴿ خذوا زينتكم عند كل مسجد﴾ : ۳۰۲۸ ] کئی مرد بھی ننگے طواف کرتے تھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس حج ( یعنی۹ ہجری) میں، جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے پہلے ان کو امیر بنا کر بھیجا تھا، مجھے قربانی کے دن چند آدمیوں کے ہمراہ بھیجا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے گا اور نہ کوئی شخص ننگا ہو کر طواف کرے گا۔ [ بخاری، الحج، باب لا یطوف بالبیت عریان....: ۱۶۲۲ ] وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا: جب اوپر کی آیت میں قسط ( عدل و انصاف) کا حکم دیا، تو دوسری چیزوں کے ساتھ لباس اور کھانے پینے میں بھی ’’ قسط‘‘ کا حکم ہو گیا، اس لیے ان میں بھی اسراف سے منع فرما دیا۔ (کبیر) اسراف یہ ہے کہ آدمی حلال کو حرام ٹھہرا لے، جیسا کہ مشرکین کرتے تھے، یا اہل تصوف کرتے ہیں، یا حلال سے تجاوز کر کے حرام کھائے یا حرام کام میں خرچ کرے کہ یہ تھوڑا بھی اسراف ہے۔ اسراف، یعنی حد سے نکلنا کسی بھی چیز میں ناپسندیدہ ہے، خصوصاً کھانے پینے میں بے احتیاطی تو اکثر بیماریوں کی جڑ اور دنیا و آخرت دونوں میں نقصان دہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو بغیر اسراف کے اور بغیر تکبر کے۔‘‘ [ بخاری، اللباس، باب قول اللّٰہ تعالٰی : قل من حرم زينة اللّٰہ التي..... قبل ح : ۵۷۸۳، تعلیقًا ] جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور اپنی تہ بند پنڈلی تک اٹھاؤ، اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور تہ بند لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر میں سے ہے اور اﷲ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ [ أبو داؤد، اللباس، باب ما جاء فی إسبال الأزار : ۴۰۸۴۔ ترمذی : ۱۷۸۳ و صححہ الألبانی ] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا کھینچے اﷲ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔‘‘ [ بخاری، اللباس، باب قول اللّٰہ تعالٰی : قل من حرم زينة اللّٰہ التي....: ۵۷۸۳، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما ] معلوم ہوا صرف تہ بند ہی نہیں کوئی بھی کپڑا جان بوجھ کر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا تکبر اور حرام ہے، بے اختیار یا بے دھیانی میں لٹک جائے تو الگ بات ہے۔ مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ابن آدم نے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں بھرا، ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں، اگر ضرور ہی کھانا ہے تو ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے ہے۔‘‘ [ أحمد :4؍132، ح : ۱۷۱۹۱۔ ترمذی : ۲۳۸۰، صحیح ] ہاں کبھی کبھار یا زیادہ دیر کا بھوکا ہو تو زیادہ کھا سکتا ہے، جیسا کہ احادیث سے بعض مواقع پر ثابت ہے۔