يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
اے بنی آدم (علیہ السلام) تمہیں شیطان نہ بہکاوے ، جیسے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا ان کے کپڑے ان پر سے کھینچتا تھا ، کہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھلائے ، شیطان اور اس کی قوم تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں کہ جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ہم نے شیطانوں کو بےایمانوں کا دوست بنا دیا ہے ۔
1۔ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ....:شیطان کی کوشش یہ ہے کہ تم جنت میں نہ جانے پاؤ، جیسا کہ اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، اس کے لیے وہ بے پردگی کو اور بے لباس ہونے کو عام کرتا ہے، تاکہ بے حیائی اور بد کاری پھیل جائے۔ دیکھنا کہیں اس فتنے میں مبتلا ہو کر جنت سے محروم نہ ہو جانا۔ 2۔ اِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِيْلُهٗ....:یعنی ایسے دشمن سے تو بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنا چاہیے جو ہمیں دیکھے مگرہم اسے دیکھ نہ پائیں۔ اس آیت سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جنوں کو دیکھنا ممکن نہیں ہے، مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگرچہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ اور اس کا قبیلہ ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ ہم انھیں نہیں دیکھتے ہوتے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا دکھائی دینا کسی وقت بھی ممکن نہیں۔ یہ ’’قَضِيَّةٌ مُطْلَقَةٌ لَا دَائِمَةٌ ‘‘ ہے، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ جنوں کو دیکھنا ممکن ہے۔ احادیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو دیکھا ہے۔ (فتح القدیر) اور زکوٰۃِ رمضان کی نگرانی کے قصے میں مذکور ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسلسل تین راتیں ایک جن کو پکڑتے رہے۔ [ بخاری : ۲۳۱۱۱ ] اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آج رات میری نماز قطع کرنے کے لیے میرے پاس ایک سرکش جن آ گیا، اگر میرے بھائی سلیمان( علیہ السلام ) کی دعا نہ ہوتی تو میں اسے پکڑ کر ستون سے باندھ دیتا اور صبح کو مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے۔‘‘ [ مسلم : ۵۴۱۔ بخاری : ۴۶۱ ] سلیمان علیہ السلام کے پاس تو باقاعدہ جنوں کی قوم تھی۔ [ النمل : ۱۷ ]