قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ
فرمایا کہ تجھے کس چیز نے روکا کہ تونے سجدہ نہ کیا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا ، بولا میں اس سے بہتر ہوں تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے بنایا ہے (ف ٢) ۔
1۔ قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ: یہاں ’’اَلَّا ‘‘ زور اور تاکید کے لیے ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۂ صٓ (۷۵) میں فرمایا : ﴿مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ ﴾ ’’تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا۔‘‘ اور یہاں ہے کہ تجھے کس نے روکا کہ اس کے روکنے کے باعث تو نے سجدہ نہ کیا۔ 2۔ اس سے وہ مشکل حل ہو جاتی ہے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو تھا، ابلیس جنوں میں سے تھا، فرشتہ تھا ہی نہیں تو وہ نافرمان کیوں ٹھہرا؟ اس کے عجیب و غریب جواب دیے گئے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علاوہ ابلیس کو بطور خاص مخاطب کر کے حکم دیا گیا تھا۔ 3۔ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ: آگ مٹی سے افضل ہے اور افضل اپنے سے کم درجہ کو کیسے سجدہ کر سکتا ہے؟ اس نے یہ نہ دیکھا کہ حکم کون دے رہا ہے، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے واضح حکم کی موجودگی میں عقلی قیاس سے کام لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ دھتکارا گیا اور اس پر اﷲ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا، اسی لیے اہل علم فرماتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے واضح حکم کی موجودگی میں قیاس کیا ابلیس تھا۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ شرک کی بنیاد بھی قیاس ہی تھا۔ (طبری) اب بھی آیات و احادیث کے مقابلے میں جو شخص اسی طرح عقلی قیاس سے کام لے گا اس کا یہ کام شیطانی ہے، اس کا بھی وہی انجام ہو گا جو ابلیس کا ہوا۔ 4۔ وَ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ: یہاں شیطان نے متعدد غلطیاں کیں، ایک تو یہ بات ہی غلط ہے کہ افضل اپنے سے کم تر کو سجدہ نہیں کر سکتا۔ بات برتر یا کم تر کی نہیں، حکم کی ہے اور اﷲ تعالیٰ جسے جو چاہے حکم دے سکتا ہے۔ دوسرا اس کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنانے کا اور عزت و تکریم بخشنے کا جو شرف عطا فرمایا وہ کسی بھی مخلوق کو نہیں بخشا اس لیے فرمایا : ﴿مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾ [ص : ۷۵ ] ’’تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لیے سجدہ کرے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔‘‘ اور تیسری یہ بات بھی غلط ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے، کیونکہ آگ میں تیزی، چلانا اور بھڑکنا ہے جبکہ مٹی میں تواضع، ٹھکانابننے، اگانے اور بڑھانے کی خوبی موجود ہے۔ اب بھی جو لوگ قرآن و حدیث کے مقابلے میں قیاس کرتے ہیں اس پر تھوڑا سا غور کریں تو اس کا فاسد و باطل ہونا آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔