وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور ان دن تول حق ہے سو جن کی تول بھاری ہوگی ، وہی نجات پائیں گے ۔
وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ الْحَقُّ: اوپر کی آیت میں سوال اور حساب کا ذکر ہے، اس آیت میں وزن اعمال کا، یعنی ہر ایک کے نیک و بد اعمال کا وزن ہو گا۔ یہاں اس اشکال کی بنا پر کہ ان اعمال کا تو اس وقت وجود ہی ختم ہو چکا ہو گا، بعض عقل پرستوں نے وزن اعمال ہی سے انکار کر دیا، مگر اﷲ تعالیٰ کی بات کیسے غلط ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری کو ختم ہی اس بات کو قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ ثابت کرنے سے کیا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۴۷) یہ وزن کیسے ہو گا، کچھ اہل علم نے کہا کہ وہ کاغذ تولے جائیں گے جن میں عمل لکھے ہوں گے۔ بعض نے کہا کہ ان اعمال کو جسم دے کر وہ جسم تولے جائیں گے۔ بعض نے کہا کہ اس عمل والے کو تولا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’تینوں صورتیں ممکن ہیں اور آیات و احادیث میں ہر ایک کی تائید ملتی ہے۔‘‘ چوتھی صورت یہ ہے کہ خود عمل تو لے جائیں گے، کیونکہ ان کا وجود ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا: ﴿ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ﴾ [ الکہف : ۴۹ ] ’’اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیں گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ﴾ [ الأنبیاء : ۴۷ ] ’’اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے۔‘‘ اور سورۂ لقمان (۱۶) میں بھی یہی بات فرمائی سورۂ زلزال میں فرمایا : ﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ(7)وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ﴾ [الزلزال : ۷، ۸ ] ”اور جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔‘‘ سورۂ آل عمران (۳۰) میں بھی یہ بات موجود ہے۔ اور یہی چوتھی صورت راجح ہے۔ اب تو جدید سائنس نے دنیا ہی میں یہ مسئلہ حل کر دیا ہے، ہوا میں تحلیل ہو جانے والی آوازوں اور اعمال کا سارا نقشہ اور ختم ہونے والی چیزوں کا وزن سب کچھ انسان کے ہاتھوں ظاہر ہو رہا ہے۔ ﴿وَلِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلیٰ﴾ مگر ماننے کا لطف اس وقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات عقل میں آئے یا نہ آئے اسے من و عن تسلیم کیا جائے اور اسی کا نام اسلام ہے، سائنس سے ثابت ہونے کے بعد کسی نے مانا تو اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو کیا مانا؟