وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس میں سے نہ کھاؤ اور وہ گناہ ہے ، اور شیاطین اپنے رفیقوں کے دل میں ڈالتے ہیں ، تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو تم مشرک ہوجاؤ گے (ف ١) ۔
1۔ وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ: پہلے اﷲ نے یہ بیان فرمایا کہ اﷲ کے نام کا ذبیحہ حلال ہے۔ اب اس آیت میں بیان فرمایا کہ جس ذبیحہ پر اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے، اس میں مردار اور وہ جانور تو آیت کے صاف الفاظ میں داخل ہیں جو غیر اﷲ کے نام پر ذبح کیے گئے ہوں اور آیت گو لفظ عام ہونے کی وجہ سے ہر اس چیز کو شامل ہے جس پر اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو، خواہ وہ کھانے کی کوئی بھی چیز ہو، مگر فقہاء نے اس سے بالاجماع ذبیحہ مراد لیا ہے۔ (رازی) یاد رہے ! اگر کسی ذبیحہ پر جان بوجھ کر اﷲ کا نام ترک کر دیا جائے تو وہ اکثر فقہاء کے نزدیک حرام ہے، مگر جب مسلمان ذبح کرتے وقت ’’ بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَكْبَرُ ‘‘ بھول جائے تو اس کا کھانا جائز ہے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس امت سے خطا اور نسیان معاف کر دیا ہے۔ 2۔ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ: یعنی جانور کو غیر اﷲ کے نام پر ذبح کرنا فسق ہے یا ایسے ذبیحہ کو کھانا فسق ہے۔ دونوں معنیٰ بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۴۵)۔ 3۔ وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ....:دیکھیے اسی سورت آیت کی (۱۱۳) کا حاشیہ(۲)۔ 4۔ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ۠ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ: اﷲ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دینے والا بھی مشرک ہے، کیونکہ اس نے اﷲ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو حاکم بنا لیا، یعنی تحلیل و تحریم کا حق کسی اور کے لیے تسلیم کر لیا، جب کہ یہ صرف اﷲ کا حق ہے۔ (رازی) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شرک فقط یہی نہیں کہ کسی کو سوائے اﷲ کے پوجے، بلکہ شرک حکم میں بھی ہے کہ کسی اور کا مطیع ہووے۔ (موضح)