وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیطان آدمی اور شیطان جن بنائے کہ فریب دینے کی طمع کی ہوئی باتیں ایک دوسرے کے جی میں ڈالتے ہیں ، اور اگر تیرا رب چاہتا ، تو وہ ایسا نہ کرتے ، تو انہیں چھوڑ دے (ف ٢) ۔ اور جو کچھ کہ باندھ لیتے ہیں ۔
1۔ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا....: یعنی جس طرح جن و انس کے شیطان آپ سے دشمنی کر رہے ہیں، یہ صرف آپ کا حال نہیں، بلکہ اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے تمام انبیاء کے لیے بھی جن و انس شیطان دشمن بنائے تھے، لہٰذا آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، بلکہ جس طرح پہلے انبیاء نے اپنے شریر دشمنوں کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیا، آپ بھی ان کی ایذا رسانی پر صبر کیجیے، مایوسی اور گھبراہٹ کو اپنے اندر راہ نہ دیجیے۔ 2۔ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ....: وحی کا معنی خفیہ طریقے سے اطلاع دینا ہے، یعنی وہ انسان اور جن جو شیطان ہیں، وہ اپنوں میں سے سیدھے سادے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے چوری چھپے طرح طرح کے مزین اور ملمع کیے ہوئے حیلے اور مکر سکھاتے ہیں۔ ’’ غُرُوْرًا ‘‘ مفعول لہ ہے، یعنی دھوکا دینے کے لیے۔ 3۔ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ: مگر وہ چونکہ حجت پوری کرنے کے لیے انھیں امتحان کا پورا پورا موقع دینا چاہتا ہے اور کسی کو زبردستی اپنی نافرمانی سے باز رکھنا اس کی حکمت اور تکوینی نظام کے خلاف ہے، اس لیے وہ انھیں ڈھیل دے رہا ہے۔ 4۔ فَذَرْهُمْ وَ مَا يَفْتَرُوْنَ: یعنی ان کی کوئی پروا نہ کریں، انھیں اور ان کے جھوٹ گھڑنے کو اﷲ پر چھوڑ دیں، وہ خود ان سے نمٹ لے گا۔