سورة الانعام - آیت 105

وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور یوں ہم پھیر پھیر کر آیتیں بیان کرتے ہیں اور یہ اس لئے کہ وہ کہیں کہ تو تو پڑھا ہوا ہے (ف ٣) ۔ اور اس لئے کہ ہم اس کو سمجھ والوں کیلئے بیان کریں ،

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ: یہاں تک اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کا اثبات تھا، اب نبوت کو ثابت کرنے کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ ہم ایسے ہی مختلف طریقوں کے ساتھ بار بار دھراتے ہیں، کبھی مومنوں کو خوش خبری، کبھی کافروں کو تنبیہ، کبھی گزشتہ قوموں کے واقعات کے ذریعے سے نصیحت اور کبھی کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کے احکام، تاکہ جو لوگ عقل و فہم رکھتے ہیں، وہ ان کے ذریعے سے راہ ہدایت پائیں اور مخالفین پر حجت ہو۔ وَ لِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ: یعنی ہم آیات کو پھیر پھیر کر اس لیے بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک طرف ان آیات کے ذریعے سے عقل و فہم والے راہِ ہدایت پائیں گے تو دوسری طرف ضدی اور آباء و اجداد کے رسم و رواج سے چمٹے رہنے والے کافر و مشرک آپ سے یہ کہہ کر گمراہ ہوں گے کہ یہ قرآن جسے تم ہمارے سامنے پڑھ رہے ہو، تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا، بلکہ تم نے کسی سے پڑھا اور سیکھا ہے۔ مشرکین کے اسی قسم کے اقوال کئی دوسری آیات میں مذکور ہیں، مثلاً سورۂ فرقان (۴، ۵) اور سورۂ مدثر (۱۸ تا ۲۵) ( رازی، قرطبی) ’’ وَ لِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ ‘‘ کی واؤ سے دیگر حکمتوں کی طرف اشارہ ہے جنھیں قصداً حذف کر دیا گیا ہے، کیونکہ ان سب کا بیان بہت طویل تھا۔ واؤ کے بعد ایک حکمت بیان فرما دی گئی۔ وَ لِنُبَيِّنَهٗ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ: آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرنے کی پہلی حکمت یہ بیان فرمائی کہ کفار اور عناد رکھنے والے یہ کہیں کہ تم نے یہ قرآن کسی سے پڑھ لکھ کر سیکھ لیا ہے، تاکہ اس طرح زیادہ گمراہ ہوں، یہاں دوسری حکمت بیان کی ہے ’’تاکہ اہل علم کے لیے بیان اور فہم حاصل ہو۔‘‘ (رازی)