سورة الانعام - آیت 99

وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر اس سے ہم نے ہر قسم کی روئیدگی اگائی ، پھر اس میں سے ہم نے سبزہ نکالا ، جس سے ہم دانے نکالتے ہیں ایک پر ایک چڑھا ہوا ، اور کھجور کے گابھے میں گچھے لٹکتے ہیں ‘ اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار نکالتے ہیں ، ہم شکل ، اور جدے جدے ، اس کے پھل کی طرف دیکھو ، جب پھل لاتا ہے اور اس کا پکنا دیکھو ، اس میں مومنین کے لئے نشانیاں ہیں (ف ١) ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ....: ’’ قِنْوَانٌ ‘‘یہ’’ قِنْوٌ ‘‘ کی جمع ہے بمعنی خوشے۔ ’’ دَانِيَةٌ ‘‘ یہ ’’دَنَا يَدْنُوْ ‘‘ سے اسم فاعل ہے، یعنی قریب، مراد نیچے جھکے ہوئے۔ ’’مُشْتَبِهًا وَّ غَيْرَ مُتَشَابِهٍ ‘‘ یعنی پتے ملتے ہیں، مگر پھل مختلف ہیں، یا ایک ہی درخت، مثلاً آم کو لے لیں کہ ان کے پودے ملتے جلتے ہیں، مگر ہر پودے کے پھل کی لذت الگ ہے۔ 2۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں میں سے ایک عظیم قدرت اور نعمت کا ذکر فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعے سے نرم و نازک انگوری نکالی، جس سے تہ بہ تہ دانوں سے بھرے ہوئے خوشے نکالے اور کھجور کو دیکھو کہ پہلے ایک سُوا سا نکلا، پھر وہ درخت بن گیا، پھر اس سے کچا پھل بنایا، پھر اس کا رنگ بدلتا جاتا ہے اور وہ بڑا بھی ہو جاتا ہے۔ ان کے پھل دینے کو اور ان کے پکنے کو دیکھو، جب کچا ہوتا ہے تو اس کی کچھ حیثیت نہیں اور پک کر کس قدر لذیذ ہو جاتا ہے۔ یہی حال انگور، زیتون اور انار کا ہے۔