أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ
کیا نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے ہم نے کس قدر امتوں کو ہلاک کیا ہے ؟ انہیں ہم نے زمین میں اس قدر جمایا کہ اس قدر تمہیں نہیں جمایا اور ہم نے ان پر پے در پے مینہ برسایا ، اور ان کے نیچے نہریں جاری کیں ، پھر ہم نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاک کردیا ، اور ان کے بعد اور امت ہم نے کھڑی کی (ف ١) ۔
اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا.... : کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ کیا انھیں معلوم نہیں کہ ان سے پہلے کئی اقوام، مثلاً قوم نوح، عاد و ثمود اور آل فرعون جو قوت و اقتدار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھے اور بارشوں اور نہروں کی وجہ سے ان کے باغ اور کھیت سر سبز و شاداب تھے اور عیش و خوشحالی کا دور دورہ تھا، جب انھوں نے بغاوت اور سرکشی پر کمر باندھی تو ہم نے ان کا نام و نشان مٹا دیا، پھر ان کے بعد اور قومیں پیدا کر دیں۔ جب تم سے زیادہ طاقت ور قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا تو تمھاری کیا حیثیت ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ احقاف (۲۶، ۲۷) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ ان پر حجت قائم کرنے کے لیے استدراج (رسی ڈھیلی کرنا) بھی ہو سکتا ہے۔ اس امتحان کا نتیجہ آخرت کو سامنے آئے گا۔