يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
مومنو ! ایسی باتیں جن کی حقیقت اگر تم پر کھول دی جائے تو تمہیں بری معلوم ہو رسول سے نہ پوچھا کرو (ف ١) ۔ اور جب تم انکی حقیقت ایسے وقت میں پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو ان کا بھید تمہارے لئے کھولا جائے گا خدا نے ان سے درگزر کی اور خدا بخشنے والا بردبار ہے ۔
1۔ لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ ....: یعنی اگر بلا ضرورت سوال کرو گے اور اس کا جواب تمھاری آسانی کے خلاف اتر آیا تو خواہ مخواہ مشکل میں پڑ جاؤ گے اور پھر بجا نہ لانے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان قرار پاؤ گے۔ اب جب کہ قرآن اتر رہا ہے، تمھارے سوالوں کا جواب بھی اتر سکتا ہے، تو تم بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر فرض یا حرام قرار دلوا لو گے۔ اس بنا پر متعدد روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ سوال کرنے سے منع فرمایا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک مسلمانوں کے حق میں مسلمانوں میں سے جرم کے لحاظ سے سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام قرار نہیں دی گئی تھی، پھر اس کے سوال کی وجہ سے حرام قرار دے دی گئی۔‘‘ [بخاری، الاعتصام، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال....: ۷۲۸۹۔ مسلم : ۲۳۵۸ ] مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۰۸)۔ 2۔ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا: ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس سے پہلے جو سوال تم کر چکے اللہ تعالیٰ نے وہ معاف فرما دیے ہیں اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور معافی ہے کہ اس نے ان چیزوں سے در گزر کیا ہے، بیان نہیں فرمایا اور تمھارے لیے ان کے کرنے اور نہ کرنے کی گنجائش باقی چھوڑ دی۔ (رازی، ابن کثیر)