قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
تو کہہ اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور اس قوم کے خیالات نہ مانو جو پہلے گمراہ اور بہتوں کو بہکا گئے اور آپ سیدھی راہ سے بھٹک گئے (ف ١)
1۔ قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ ....:یہود و نصاریٰ کی الگ الگ تردید کے بعد اب دونوں کو مخاطب فرمایا ہے۔ (کبیر) نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کے معاملہ میں غلو کیا اور ایک بشر جسے اﷲ تعالیٰ نے نبوت بخشی تھی اور اسے اپنی قدرت کاملہ کی نشانی قرار دیا تھا [ديكهيے زخرف : ۵۹۔ مومنون : ۵۰] اسے معبود کے مقام پر کھڑا کر دیا۔ دوسری طرف یہودیوں نے انھیں جھوٹا قرار دیا، ان سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا، ان پر اور ان کی والدہ پر تہمت طرازی کی اور ان کے قتل کے درپے ہوئے، بلکہ بقول یہود و نصاریٰ یہود نے مسیح علیہ السلام کو سولی دے دی اور ان کی پسلیوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ (کبیر، ابن کثیر) حقیقت یہ ہے کہ دین میں جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو (راہ اعتدال کو چھوڑنے) کی وجہ سے آئی ہے، اسی لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بار بار نصیحت فرمائی : ’’مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح نصاریٰ نے مسیح ابن مریم ( علیہما السلام ) کو حد سے بڑھا دیا تھا، میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، اس لیے تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہو۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : واذكر في الكتاب مريم ....:۳۴۴۵ ] مگر مسلمانوں نے بھی اس قدر غلو کیا کہ اپنے ائمہ کو نبی کا درجہ دے کر ان کی بے دلیل بات پر عمل کو بھی واجب قرار دیا اور جو ایسا نہ کرے اسے لامذہب قرار دیا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں اﷲ تعالیٰ والی صفات ہونے کا عقیدہ اپنا لیا کہ وہ بھی ہر بات سنتے اور جانتے ہیں اور کائنات میں ان کا حکم بھی چلتا ہے۔ بعض نے اﷲ اور رسول کو ایک ہی ذات قرار دیا، اگر کوئی ان کی تردید کرے تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء کو، نبی کو اور اﷲ تعالیٰ کو نہیں مانتے، حالانکہ ہم اﷲ کو اپنا معبود اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول اور اولیاء کو اﷲ کے مقرب بندے مانتے ہیں، مگر اولیاء کو نبی نہیں مانتے اور رسول کو اﷲ تعالیٰ نہیں مانتے۔ 2۔ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ ....:پہلے فرمایا : ﴿ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ﴾ (اس سے پہلے گمراہ ہو چکے) آخر میں پھر فرمایا : ﴿وَضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ ﴾ (اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے) گو یہ دونوں جملے بظاہر ایک ہی ہیں، مگر علماء نے لکھا ہے کہ اول سے مراد یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے اور دوسرے ’’ ضَلُّوْا ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ اب تک اس گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلی گمراہی سے مراد عقیدہ کی گمراہی اور دوسری سے مراد عمل کی گمراہی ہو۔ یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت چلو جنھوں نے کسی نبی (مثلاً عزیر یا عیسیٰ علیہما السلام ) کو الٰہ بنایا، کسی نبی (مثلاً داؤد، مسیح، ان کی والدہ اور لوط علیہم السلام ) پر زنا وغیرہ کی تہمتیں لگائیں اور کسی کو قتل کر دیا، ان کاموں کے ساتھ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور آخر وقت تک سیدھے راستے پر نہیں آئے۔ ’’ان کے پیچھے مت چلو‘‘ سے معلوم ہوا کہ یہ گمراہیاں ان میں پہلے لوگوں کی تقلید کی وجہ سے آئی تھیں، تم یہ کام مت کرنا۔