قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
تو کہہ اے اہل کتاب ! تم کچھ (بھی) راہ پر نہیں ہو جب تک کہ تم توریت ، اور انجیل پر اور جو تمہارے رب سے تمہاری طرف نازل ہوا ، اس پر قائم نہ ہوجاؤ ، اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تیرے رب سے تیری طرف اترا ہے ‘ یہ تو ان میں سے بہتوں کے درمیان شرارت اور کفر ہی بڑھائے گا ۔ سو تو کافر قوم پر افسوس نہ کر (ف ٢)
1۔ قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَيْءٍ ....:تورات و انجیل قائم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان میں جو عہد ان سے لیے گئے ان کو پورا کریں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر ایمان لانے کے جو دلائل ان کتابوں میں موجود ہیں ان کے مطابق آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور تورات و انجیل کے احکام و حدود پر عمل پیرا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر پورے طور پر ان کتابوں پر عمل نہیں کرو گے تو نہ تمھاری کوئی حیثیت اور نہ تمھاری کوئی دین داری۔ (ابن کثیر) یہی بات مسلمانوں پر صادق آتی ہے کہ اگر وہ قرآن پر پوری طرح عمل نہیں کریں گے تو نہ ان کی کچھ حیثیت ہو گی نہ کوئی دین داری۔ 2۔ وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ: دیکھیے اسی سورت کی آیت (۶۴،کا حاشیہ (۳)۔ 3۔ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ: اس لیے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا وبال خود بھگت کر رہیں گے۔