سورة المآئدہ - آیت 35

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! اللہ سے ڈرو اور اس کے طرف وسیلہ (ف ٣) ڈھونڈھو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہارا بھلا ہو ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ....:یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے ( کیونکہ اﷲ کے قرب کے حصول کے لیے اب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے سوا کوئی وسیلہ نہیں) اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو ( وہ) قبول نہیں۔ (موضح) لفظ ’’الْوَسِيْلَةَ ‘‘ یہ ’’ تَوَسَّلْتُ إِلَيْهِ ‘‘ سے ’’ فَعِيْلَةٌ ‘‘ کے وزن پر ہے۔ اس کی جمع ’’وَسَائِلُ ‘‘ آتی ہے، اس کا لفظی معنی قرب ہے، مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اس آیت میں اﷲ کے تقوے کا اور اس کا قرب حاصل کرنے کا حکم دینے کے بعد جہاد کا حکم دیا، معلوم ہوا کہ اﷲ کا تقویٰ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اس کی راہ میں جہاد ( سرتوڑ کوشش خصوصاً قتال) ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی زندہ شخص سے دعا کروانا بھی جائز ہے، مگر کسی زندہ یا مردہ کا نام لے کر کہنا کہ یا اﷲ! فلاں کے وسیلے یا طفیل ہماری دعا قبول فرما، نہ قرآن سے ثابت ہے نہ صحیح حدیث سے، ہاں اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کا واسطہ دے کر یا اپنا کوئی خالص عمل پیش کر کے دعا کر سکتا ہے، یہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ وسیلہ ایک مقام کا نام بھی ہے، اس میں بھی قرب کا معنی ہی ملحوظ ہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : ’’جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو، جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اﷲ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلے کی دعا کرو، وسیلہ جنت کا وہ مقام ہے جو اﷲ کے بندوں میں سے صرف ایک ہی کو نصیب ہو گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا، لہٰذا جس نے میرے لیے وسیلے کی دعا کی تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘ [ مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن…....: ۳۸۴]اﷲ کا قرب (وسیلہ) اتنی بڑی نعمت ہے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کے جتنا قریب ہے اس سے مزید قرب کی دعا اور کوشش کرتا ہے۔ دیکھیے بنی اسرائیل (۵۷)۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ: یہود کو اپنے نسب پر فخر تھا اور وہ اسی خوش فہمی میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اور اپنے آپ کو اﷲ کا محبوب سمجھتے تھے، جیسا کہ اوپر کی آیات میں گزر چکا ہے۔ اب اس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم اگرچہ بہتر امت ہو اور تمھارا نبی بھی سب سے افضل ہے، مگر تمھیں چاہیے کہ نیک اعمال کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو، تاکہ آخرت میں فلاح حاصل کر سکو، یعنی یہود کی طرح بد عمل نہ بنو۔ (کبیر)