فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا
سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑا ، وہ انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف سیدھی راہ دکھائے گا (ف ٢)
1۔ يَسْتَفْتُوْنَكَ: سورت کی ابتدا تقویٰ کے حکم کے بعد اموال کے احکام سے ہوئی تھی، اب آخر میں انھی احکام کے ساتھ سورت کا اختتام ہے۔ درمیان سورت میں مخالفین سے مجادلہ اور ان کی تردید ہے۔ (رازی) کلالہ پر بحث اس سورت کی آیت (۱۱) میں گزر چکی ہے۔ جابربن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں اس وقت بیمار اور بے ہوش تھا، آپ نے وضو کیا، پھر وضو کے بچے ہوئے پانی سے مجھ پر چھینٹے مارے، یا فرمایا : ’’اس پر چھینٹے مارو۔‘‘ جس سے مجھے ہوش آ گیا، میں نے عرض کی کہ میں کلالہ ہوں، میری میراث کیسے تقسیم ہو گی، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ بخاری، المرض، باب وضوء العائد للمریض : ۵۶۷۶۔ مسلم : ۱۶۱۶ ] 2۔ لَيْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ ....: بعض نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو، خواہ اس کا باپ زندہ ہی ہو، اسے کلالہ کہا جائے گا، مگر یہ صحیح نہیں، صحیح معنی وہی ہے جو پہلے گزرا، یعنی کلالہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ یا دادا نہ ہو اور اولاد بھی نہ ہو، کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث نہیں ہوتی، باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے لیکن یہاں اﷲ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہو گی، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ اولاد نہ ہونے کے ساتھ ساتھ باپ دادا بھی نہ ہوں۔ یوں اولاد کی نفی تو الفاظ سے واضح ثابت ہو گئی اور باپ کی نفی اشارے سے۔ 3۔ اولاد سے مراد بیٹا، بیٹی اور بیٹے کی اولاد ہے، اسی طرح بہن سے مراد یہاں سگی بہن یا علاتی ( باپ شریک) بہن ہے، کیونکہ اخیافی بہن، جو صرف ماں کی طرف سے ہو، اس کا حکم پہلے سورۂ نساء (۱۲) میں گزر چکا ہے۔ (ابن کثیر) 4۔ ”وَلَدٌ“ کا لفظ بیٹا بیٹی دونوں پر بولا جاتا ہے، اس بنا پر بعض نے کہا کہ بیٹی ہونے کی صورت میں بہن محروم رہے گی، مگر صحیح بخاری (۶۷۴۱) میں معاذ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے کہ اگر ایک شخص فوت ہو جائے اور اس کے ورثاء میں صرف بیٹی اور بہن ہے تو بیٹی کو نصف اور باقی بہن کو (بوجہ عصبہ ہونے کے ) دیا جائے گا۔ اور بخاری ہی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرنے والے کی ایک بہن، ایک بیٹی اور ایک پوتی کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف ہے، پوتی کے لیے چھٹا حصہ، تاکہ دو ثلث پورے ہو جائیں اور جو باقی بچے گا وہ بہن کے لیے ہے۔ [ بخاری، الفرائض، باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ : ۶۷۳۶ ] 5۔ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا ....:اور یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا ہے، انھیں بھی دو ثلث ہی ملے گا اور اگر کلالہ کے وارث بھائی اور بہن دونوں ہوں تو ایک مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ 6۔ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا …....: یعنی اﷲ تعالیٰ نے میراث کے یہ حصے خود اس لیے واضح فرمائے ہیں کہ اگر یہ تم پر چھوڑ دیے جائیں تو تم کبھی صحیح فیصلہ نہ کر سکو، کیونکہ تمھیں ہر بات کا علم نہیں، جب کہ اﷲ تعالیٰ کو ہر بات کا خوب علم ہے، اس لیے اس کے فیصلے میں کبھی غلطی نہیں ہو سکتی۔