سورة الناس - آیت 1

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ میں آدمیوں کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ....: پناہ کا مطلب پچھلی سورت میں گزر چکا ہے۔ آدمی جب کسی سے خطرہ محسوس کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنے کسی مربی ( پرورش کرنے والے)، مثلاً ماں یا باپ کی پناہ لیتا ہے، ان سے چمٹ جاتا ہے، تاکہ وہ اسے بچا لیں۔ اگر وہ کمزور ہوں اور نہ بچا سکتے ہوں تو بادشاہ سے بچانے کی درخواست کرتا ہے اور اس کی پناہ لیتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ بادشاہ اپنی قوت اور فوج کے ذریعے سے اسے بچا سکتا ہے۔ اگر نظر آرہا ہو کہ اس خطرے سے بچانا بادشاہ کے بس کی بات بھی نہیں تو پھر اس ہستی کی پناہ لیتا ہے جسے وہ غیبی قوتوں کا مالک سمجھتا اور جس کی عبادت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیوی اسباب ختم ہونے کے بعد اسے اس کے علاوہ کہیں سے پناہ نہیں مل سکتی۔ اس سورت میں وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے پناہ لینے کے لیے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ساتھ پناہ پکڑنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر اپنے کسی پرورش کرنے والے کی پناہ پکڑنا چاہو تو بجائے اس کے کہ کسی ایسے شخص کی پناہ پکڑو جو کسی ایک آدھ یا چند آدمیوں کی پرورش کر رہا ہو اور حقیقت میں وہ خود محتاج ہو، تم اس کی پناہ پکڑو جو سب لوگوں کا رب اور سب کی پرورش کرنے والا ہے، جو کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اگر کسی صاحب قوت بادشاہ کی پناہ پکڑنا چاہو تو بجائے اس کے کہ ان بادشاہوں کی پناہ پکڑو جو فوجوں کے محتاج ہیں، جن کا اقتدار محدود اور عارضی ہے اور جن کی اپنی زندگی اور اپنا نفع و نقصان ان کے ہاتھ میں نہیں، تم اس کی پناہ پکڑو جو تمام لوگوں کا بادشاہ ہے اور اس کی قوت اور بادشاہی کسی فوج یا سالار کی محتاج نہیں اور اگر کسی ایسی ہستی کی پناہ لینا چاہو جسے غیبی قوتوں کا مالک ہونے کی وجہ سے تم عبادت کا حق دار سمجھتے ہو تو وہ صرف اور صرف ایک ہی ہے، جو تمام لوگوں کا معبود برحق ہے اور صرف وہی تمھیں ان خطرات میں پناہ دے سکتا ہے جن کے سامنے تمام مربی اور تمام بادشاہ بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کوئی غیبی قوتوں کا مالک ہے، نہ کائنات کی کسی چیز میں کسی دوسرے کا دخل ہے اور نہ کسی کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ 2۔ سورۂ فلق میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‘‘ کے ساتھ ساری مخلوق کے شر سے عموماً اور مخلوق میں سے تین چیزوں کے شر سے خصوصاً پناہ مانگی گئی ہے، یعنی اندھیری رات، گرہوں میں پھونکنے والیوں اور حاسد کے شر سے اور اس سورت میں صرف ایک چیز یعنی ہٹ ہٹ کر وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ساتھ پناہ مانگی گئی، کیونکہ پہلی تینوں چیزیں انسان کے جسم و جان کو نقصان پہنچانے والی ہیں، جب کہ وسوسہ اس کے ایمان کو نقصان پہنچانے والا ہے اور ایمان کی حفاظت کی فکر جسم و جان سے بھی اہم ہے۔ 3۔ پہلی تین آیات میں ’’ النَّاسِ ‘‘ کا لفظ بار بار لایا گیا ہے، حالانکہ ’’ بِرَبِّ النَّاسِ ‘‘ کے بعد والی آیات میں ’’ النَّاسِ ‘‘ کی ضمیر بھی لائی جا سکتی تھی۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم) کہ لوگوں کے وسوسے کا شر اتنا خوف ناک ہے کہ بندہ بار بار اس کا حوالہ دیتا ہے کہ یا اللہ! لوگوں کا رب بھی تو ہے، لوگوں کا بادشاہ بھی تو ہے اور لوگوں کا الٰہ بھی تو ہے، اس لیے لوگوں کے شر سے پناہ بھی توہی دے سکتا ہے۔ اس سورت میں ان تینوں صفات کی پناہ پکڑتے وقت ضمناً بھی بار بار لوگوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے، پھر’’ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ....‘‘ کے ساتھ صاف لفظوں میں بھی لوگوں کے وسوسے کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ تفسیر قاسمی میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ناصر سے ایک اور حکمت نقل کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پناہ مانگنے والے بھی چونکہ لوگ ہیں، اس لیے پناہ مانگتے وقت بار بار ان نسبتوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے درمیان اور لوگوں کے درمیان موجود ہیں کہ یا اللہ! تو لوگوں کا رب بھی ہے، لوگوں کا بادشاہ بھی اور لوگوں کا معبود برحق بھی، تو جب لوگوں کا سبھی کچھ تو ہی ہے تو تیرے علاوہ انھیں پناہ دینے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ (قاسمی)