سورة الفلق - آیت 3

وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اندھیرا کرنے والی کی برائی سے جب چھا جائے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ: اگرچہ ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگنے کے بعد کوئی چیز باقی نہیں رہی جس کے شر سے پناہ مانگی جائے، مگر مخلوق میں سے چند چیزوں کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کا سبق دیا گیا، کیونکہ یہ بہت ہی خوف ناک ہیں اور ان کے شر سے پناہ مانگنے کی تو بہت ہی ضرورت ہے۔ 2۔ ’’ غَاسِقٍ‘‘ کامعنی ہے تاریک، سخت اندھیرے والی۔ قاموس میں ہے : ’’غَسَقَ اللَّيْلُ أَيْ اِشْتَدَّتْ ظُلْمَتُهٗ‘‘ ’’یعنی ’’غَسَقَ اللَّيْلُ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ رات کی تاریکی بہت سخت ہوگئی۔‘‘ سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا : ﴿ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ﴾ [ بني إسرائیل : ۸۷ ] ’’رات کے سخت تاریک ہونے تک۔‘‘ ’’ وَقَبَ ‘‘ (ض) داخل ہونا ، غائب ہونا۔ فرّاء نے ’’ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ‘‘ کا معنی کیا ہے: ’’ اَللَّيْلُ إِذَا دَخَلَ كُلَّ شَيْءٍ وَ أَظْلَمَ‘‘ ’’ رات جب ہر چیز پر چھا جائے اور تاریک ہو جائے۔‘‘ تاریک رات کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کی تلقین اس لیے کی گئی ہے کہ اندھیری رات میں بے شمار شرور و خطرات ہوتے ہیں، اکثر مجرم، چور، ڈاکو، زانی، قاتل اور شب خون مارنے والے رات ہی کو نکلتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات ہی میں قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے، تاکہ نہ آپ بچاؤ کر سکیں اور نہ قاتل کا پتا چل سکے۔ جنگلی جانوروں مثلاً شیر، چیتے، بھیڑیے وغیرہ اور حشرات الارض مثلاً سانپ ، بچھو وغیرہ کا خطرہ رات کو زیادہ ہو جاتا ہے اور مچھر، کھٹمل وغیرہ رات کو جو تکلیف دیتے ہیں سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق اکثر بیماریوں کے جراثیم اندھیرے میں پیدا ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اندھیرے میں وہمی چیزوں کا خوف مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان سب پر مزید یہ کہ ان سب شرور کے اندھیرے میں واقع ہونے کی وجہ سے انسان ان سے اپنا بچاؤ بھی نہیں کر سکتا، اس لیے اندھیری رات کی برائیوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی۔ 3۔ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھا تو فرمایا : (( يَا عَائِشَةُ! اسْتَعِيْذِيْ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّ هٰذَا، فَإِنَّ هٰذَا هُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ )) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المعوذتین : ۳۳۶۶، وصححہ الترمذي والألباني ] ’’اے عائشہ! اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو، کیونکہ یہی ’’غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ‘‘ہے۔‘‘ اس صورت میں’’غَاسِقٍ‘‘ کا معنی ’’اندھیرے والا‘‘ اور ’’ اِذَا وَقَبَ‘‘ کا معنی ’’ إِذَا غَابَ ‘‘ہے، یعنی ’’جب غائب ہو جائے۔‘‘ شاہ رفیع الدین نے ترجمہ یوں کیا ہے : ’’اور برائی اندھیرا کرنے والے کی سے، جب وہ چھپ جائے۔‘‘ یعنی چاند غروب ہو کر اندھیرا پھیلا دیتا ہے۔ بعض مفسرین نے ’’ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ‘‘ سے سورج مراد لیا ہے، کیونکہ سورج غائب ہو کر سخت تاریکی پھیلنے کا باعث بنتا ہے۔ بہرحال ان تفسیروں اور پہلی تفسیر میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ مراد تاریکی کے شر سے پناہ مانگنا ہی ہے۔