قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ
تو کہہ اے کافرو
1۔ قُلْ يٰاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ....: طبرانی اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے جو روایتیں آئی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ اور چند دیگر مشرکوں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو، اس طرح ہم اور تم مل جل کر مکہ میں رہیں، اگر تم ایسا نہیں کرتے تو ایک سال تم ہمارے بتوں کی پوجا کر لیا کرو، دوسرے سال ہم تمھارے الٰہ کی بندگی کر لیا کریں گے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ اگرچہ اس شان نزول کی روایت کی سند میں ایک شخص ابو خلف عبداللہ ضعیف ہے، لیکن آیت : ﴿قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّيْ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ ﴾ [ الزمر : ۶۴ ] (کہہ دے ! پھر کیا اللہ کے غیر کے بارے میں تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اس کی عبادت کروں اے جاہلو!) کے مضمون سے اس شان نزول کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ قریش کی جس فرمائش کا ذکر اس شان نزول کی روایت میں ہے، آیت کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی فرمائش ضرور کی تھی۔ (احسن التفاسیر) 2۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کی دو رکعتوں میں سورۂ اخلاص اور سورۂ کافرون پڑھی۔ [ مسلم ، الحج، باب حجۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸] صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں سورتیں یعنی سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص فجر کی دو رکعتوں ( سنتوں) میں پڑھیں۔ [ مسلم، صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر....: ۷۲۶ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے تو اس کی دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھا کرتے تھے۔ [ دیکھیے ترمذي، الوتر، باب ما جاء في ما یقرأ بہ في الوتر : ۴۶۲، صححہ الألباني ] 3۔ سورت کا مضمون یہ ہے کہ ساری دنیا کے کافروں کو سنا دو کہ مسلمان غیر اللہ کی عبادت کسی صورت نہیں کر سکتے، اس مسئلے پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔ 4۔ تکرار کی حکمت : (1) بہت سے اہلِ علم نے فرمایا کہ آیات میں تکرار تاکید کے لیے ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی توحید کے متعلق کفار سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور یہ کلام عرب اور قرآن مجید کا عام اسلوب ہے، جیسے فرمایا : ﴿ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (4) ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ ﴾ [النبا : ۴ ، ۵ ] ’’ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔ پھر ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کی موجودگی میں علی رضی اللہ عنہ کو دوسرے نکاح کی اجازت کے متعلق فرمایا : (( فَلاَ آذَنُ، ثُمَّ لاَ آذَنُ، ثُمَّ لاَ آذَنُ )) [ بخاري، النکاح، باب ذبّ الرجل عن ابنتہ في....: ۵۲۳۰ ] ’’میں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ اسی طرح سورۂ رحمان اور مرسلات میں آیات کا بار بار تکرار ہے۔ یہاں تکرار کا مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کر لوں اور نہ یہ ممکن ہے کہ تم کافر رہتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کو یکسر ترک کرکے ایک اللہ کی عبادت پر قانع ہو جاؤ۔ شوکانی نے تکرار تاکید کے لیے ہونے کے علاوہ دوسری توجیہات کو تکلف قرار دیا ہے۔ (2) بخاری رحمہ اللہ نے (ابو عبیدہ سے) یہ تفسیر نقل فرمائی ہے کہ آیت : ﴿لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ﴾ کا مطلب ہے کہ میں اب موجودہ وقت میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو اور آیت : ﴿ وَ لَا اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ بھی جب تک میں زندہ ہوں کبھی اس کی عبادت نہیں کروں گا جس کی تم نے عبادت کی ہے۔ اسی طرح کفار کے متعلق فرمایا کہ نہ اب زمانۂ حال میں تم اس (اکیلے اللہ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ آئندہ زمانۂ استقبال میں۔ اس پر ایک سوال ہے کہ کافروں کے متعلق کیسے فرمایا کہ وہ آئندہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کریں گے، ہو سکتا ہے آئندہ وہ مسلمان ہو جائیں اور فی الواقع بے شمار کافر مسلمان ہوئے بھی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کافر رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں، مسلمان ہو جائیں تو الگ بات ہے۔ دوسرا جواب بخاری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ آیات سن کر ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان ان کی قسمت میں نہیں، جیساکہ فرمایا : ﴿وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّ كُفْرًا ﴾ [ المائدۃ : ۶۸ ] ’’اور یقیناً جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا۔‘‘ بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں : ’’وَقَالَ غَيْرُهُ : ﴿ لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ» اَلْآنَ وَلَا أُجِيْبُكُمْ فِيْمَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِيْ «وَ لَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ ﴾ وَهُمُ الَّذِيْنَ قَالَ : ﴿ وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّ كُفْرًا ﴾ [المائدة : ۶۷] ‘‘ [ بخاري، التفسیر، سورۃ : ﴿قل یأیھا الکافرون» ، قبل ح : ۴۹۶۷ ] مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ (3) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس معنی کو ترجیح دی ہے کہ پہلی دو آیات میں ’’ مَا ‘‘ موصولہ ہے اور دوسری دو میں مصدریہ۔ معنی یہ ہوگا کہ میں اس چیز کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو (یعنی معبودانِ باطلہ کی) اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں کرتا ہوں (یعنی ایک اللہ کی) اور نہ میں وہ عبادت کرنے والا ہوں جو تم کرتے ہو (یعنی جس طرح تم تالیاں اور سیٹیاں بجا کر ذکر کرتے ہو اور کپڑے اتار کر ننگے ہو کر طواف کرتے ہو، میں اس طرح عبادت نہیں کرتا) اور نہ تم وہ عبادت کرنے والے ہو جو میں کرتا ہوں، یعنی صرف اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عبادت کرو، تم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (4) حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ’’ لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ‘‘ جملہ فعلیہ ہے، اس کا معنی ہے کہ نہ میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم کرتے ہو اور ’’ وَ لَا اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ ‘‘ جملہ اسمیہ ہے، جس میں نفی کی تاکید زیادہ ہے، یعنی میری شان ہی نہیں اور نہ کسی وقت مجھ سے ممکن ہے کہ ( رسول ہوتے ہوئے) شرک کا ارتکاب کروں۔ یعنی نہ مجھ سے یہ فعل واقع ہوا ہے اور نہ مجھ سے اس کا شرعی امکان ہے۔ ’’ مَا عَبَدْتُّمْ ‘‘ ماضی شاید اس لیے فرمایا کہ میری نبوت سے پہلے بھی تم نے جو شرک کیا اس وقت بھی وہ میرے لائق نہیں تھا، نہ میں نے اس وقت یا بعد میں کسی غیر کی پرستش کی۔ کفار کا حال دونوں جگہ جملہ اسمیہ ’’ وَ لَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ ‘‘ سے بیان فرمایا، یعنی تم میں استعداد ہی نہیں اور نہ تم سے ممکن ہے کہ تم بلاشریک غیرے اللہ واحد کی پرستش کرو۔ 5۔ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ: اس کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت آیاتِ جہاد سے منسوخ ہے، مگر یہ درست نہیں۔ اب بھی کسی کافر کو زبردستی مسلمان بنانا جائز نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۶ ] ’’دین میں زبردستی نہیں۔‘‘ اگر وہ کفر پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو جزیہ ادا کرکے کفر پر رہ سکتے ہیں، ہاں فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔ اس آیت سے ان لوگوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جو اسلام ، موجودہ نصرانیت، یہودیت، ہندو ازم اور تمام مذاہب کو ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر قرار دے کر سب کو درست قرار دیتے ہیں۔ 6۔ ’’ وَ لِيَ دِيْنِ‘‘ اصل ’’وَلِيَ دِيْنِيْ‘‘ ہے، چونکہ دوسری آیات نون پر ختم ہو رہی ہیں اس لیے آخر سے ’’یاء‘‘ حذف کردی، مگر اس پر کسرہ باقی رکھا ہے۔