فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ
سو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا
1۔فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ....:’’يَرَهٗ‘‘ اصل میں’’يَرَاهُ‘‘ ہے، جو ’’ رَاٰي يَرٰي رُؤْيَةً‘‘ کا فعل مضارع ہے، ’’ فَمَنْ يَّعْمَلْ ‘‘ شرط کی جزا ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، اس لیے الف حذف ہو گیا۔ ’’ ذَرَّةٍ ‘‘ بکھرے ہوئے غبار کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ جو روشن دان میں سورج کی شعاعوں سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ چھوٹی چیونٹی کو بھی ’’ذَرَّةٌ‘‘ کہتے ہیں۔ کافر ہو یا مسلمان، ذرہ بھر نیکی کی ہوگی تو دیکھ لے گا اور ذرہ بھر برائی کی ہوگی تو دیکھ لے گا، اعمال کے دفتر سے کوئی چیز غائب نہیں ہو گی، جیساکہ فرمایا: ﴿وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ [ الکہف : ۴۹ ] ’’ اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ البتہ اعمال کی جزا اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہوگی۔ چنانچہ کافروں کے اعمال ضائع کر دیے جائیں گے، انھیں آخرت کے بجائے دنیا ہی میں بدلا دے دیا جائے گا۔ (دیکھیے اعراف: ۱۴۷۔ احقاف: ۲۰) اور انھیں کوئی سفارش فائدہ نہیں دے گی۔ دیکھیے سورۂ مدثر (۴۸)۔ قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں ان کے اعمال ضائع ہونے اور سفارش کے مفید نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم سے نہیں نکل سکیں گے، ان پر جنت حرام ہے۔ البتہ بعض اعمال یا کسی شفاعت کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو سکتی ہے، جیسا کہ ابوطالب کو صرف آگ کا جوتا پہنایا جائے گا اور کفار اپنے اپنے اعمال کے لحاظ سے جہنم کے مختلف درکات میں ہوں گے۔ منافقین آگ کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے۔ (دیکھیے نساء: ۱۴۵) اہلِ ایمان کو ان کی برائیوں کی سزا تب ملے گی جب یہ شرطیں موجود ہوں : (1) گناہ کبیرہ ہوں۔ (دیکھیے نساء : ۳۱) (2) ان سے توبہ کیے بغیر فوت ہو جائیں۔ (3) ان کی نیکیاں میزان میں بھاری نہ ہو سکیں۔ (4) ان کے حق میں کوئی سفارش قبول نہ ہو۔ (5) ان کا کوئی عمل ایسا نہ ہو جس سے وہ مغفرت کے مستحق ہو چکے ہوں، مثلاً اہلِ بدر ۔ (6) اللہ تعالیٰ نے وہ گناہ معاف نہ کیا ہو، کیونکہ گناہ گار مومن اللہ کی مرضی پر ہے، وہ چاہے تو اسے عذاب دے، چاہے تو بخش دے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو جامع اور بے نظیر آیت قرار دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے متعلق فرمایا : (( اَلْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ : لِرَجُلٍ أَجْرٌ وَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ وَ عَلٰی رَجُلٍ وِزْرٌ )) ’’گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں، ایک آدمی کے لیے اجر ہیں اور ایک آدمی کے لیے پردہ ہیں اور ایک آدمی پر بوجھ ہیں۔‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا أَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيَّ فِيْهَا إِلَّا هٰذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةَ الْجَامِعَةَ: ﴿ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَ (7) وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ » : ۴۹۶۲] ’’اللہ نے اس کے متعلق اس بے نظیر و جامع آیت کے علاوہ مجھ پر کچھ نازل نہیں فرمایا: ’’تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔‘‘