سورة المطففين - آیت 14

كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہرگز نہیں ، بلکہ جو وہ کماتے ہیں اس نے ان کے دلوں پر زنگ لگا دیا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ....:’’ كَلَّا ‘‘ ’’ہر گز نہیں‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس جھٹلانے والے کے آیات کو جھٹلانے کی وجہ یہ نہیں کہ یہ پہلوں کی کہانیاں ہیں یا ان کے حق ہونے میں کوئی شبہ ہے، بلکہ اس کی بداعمالیاں سیاہ زنگ کی صورت میں اس کے دل پر غالب آچکی ہیں، اسے نہ حق حق نظر آتا ہے نہ باطل باطل۔ مستشرقین اور منکرین حدیث کی طرح پہلے منکرین کا بھی یہی حال تھا کہ اگر قرآن میں کوئی نئی بات آتی تو کہتے : ﴿ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ ﴾ [ القصص : ۳۶ ] ’’ہم نے تو یہ بات اپنے پہلے باپ دادا میں سنی ہی نہیں۔‘‘ اور اگر وہ بات پہلی کتابوں میں موجود ہوتی توکہتے یہ وہاں سے سرقہ کیا گیا ہے، یعنی ’’ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ‘‘ کہ یہ تو پہلوں کی کہانیاں ہیں۔ ﴿قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ﴾ [ التوبۃ : ۳۰ ] ’’ اللہ انھیں مارے، کدھر بہکائے جا رہے ہیں۔‘‘ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ: ’’ أَيْ رَكِبَهَا كَمَا يَرْكَبُ الصَّدْأُ وَ غَلَبَهَا‘‘ (زمخشری) ’’یعنی ان کے دلوں پر چڑھ گیا ہے اور غالب آگیاہے جیسے زنگ چڑھ جاتا ہے۔‘‘ ’’ رَانَ ‘‘ کا فاعل ’’ مَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ‘‘ ہے، یعنی جو کچھ وہ کمایا کرتے تھے وہ زنگ بن کر ان کے دلوں پر چھا گیا ہے۔ گناہ کا خاصہ ہے کہ اگر بار بار کیا جائے اور توبہ نہ کی جائے تو پورے دل کو گھیر لیتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيْئَةً نُكِتَتْ فِيْ قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَ تَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ وَ إِنْ عَادَ زِيْدَ فِيْهَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَهُ وَهُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَكَرَ اللّٰهُ: ﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ﴾)) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ ویل للمطففین : ۳۳۳۴ ] ’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے، جب باز آجائے اور معافی مانگ لے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو داغ بڑھا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ سیاہ داغ اس کے پورے دل پر غالب آجاتا ہے۔ یہی وہ ’’ران‘‘ ہے جو اللہ عزوجل نے ذکر فرمایا ہے : ﴿ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ﴾ ’’ ہرگز نہیں، بلکہ زنگ بن کر چھا گیا ہے ان کے دلوں پر، جو وہ کماتے تھے ۔‘‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔