وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ
کم دینے والوں کی خرابی ہے
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ: ’’اَلتَّطْفِيْفُ‘‘ ماپ یا تول میں کمی کرنا۔ ماپ تول کے علاوہ لین دین کے جتنے بھی دیگر پیمانے ہیں ان میں کمی بھی ’’اَلتَّطْفِيْفُ‘‘ ہے۔ ’’اَلطَّفِيْفُ‘‘ بالکل تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ ’’صاع‘‘ بھرا ہوا ہو، مگر پورا بھرنے سے کم ہو تو اس کمی کو ’’طَفَّ الصَّاعُ‘‘ کہتے ہیں۔ چونکہ ماپ تول میں کمی کرنے والا کوئی بڑا مال نہیں چراتا بلکہ تھوڑی سی چیز چراتا ہے، اس لیے اسے ’’اَلْمُطَفِّفُ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ فعل کمینگی کی انتہا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اتنی تھوڑی تھوڑی چیز کی چوری کرنے والا شخص بڑا مال اڑانے سے بھی پرہیز کرنے والا نہیں، صرف اپنی کم ہمتی یا پکڑے جانے کے خوف سے اتنی چوری پر صبر کیے بیٹھا ہے، ورنہ اس کی طبیعت کے فاسد ہو جانے اور امانت سے خالی ہو جانے میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرنے والوں کو ’’ وَيْلٌ ‘‘ کی وعید سنائی ہے، جس کا معنی ہلاکت ہے۔ آخرت میں ہونے والی ہلاکت کا تو کچھ شمار ہی نہیں، اس کی کچھ تفصیل اسی سورت میں آرہی ہے، اگرچہ وہ مکذبین (جھٹلانے والوں) کے لیے ہے، مگر یہ فعل بھی آخرت کی تکذیب ہی سے سرزد ہوتا ہے، جبکہ دنیا میں اس سے ہونے والی ہلاکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، حدیث لمبی ہے، اس کا ایک فقرہ یہ ہے : (( وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ، إِلاَّ أُخِذُوْا بِالسِّنِيْنَ، وَشِدَّةِ الْمَؤُوْنَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ )) [ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ۴۰۱۹ ] ’’جو قوم بھی ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالیوں، سخت مشقت اور حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے۔‘‘شیخ البانی رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم کی سند کی وجہ سے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ [ دیکھیے سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۱۰۶ ] شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ تنبیہ : ترمذی کی روایت کہ’’ویل جہنم کی ایک وادی ہے … ‘‘ صحیح نہیں۔ [ دیکھیے ضعیف ترمذي، سورۃ الأنبیاء : ۳۳۸۹ ]