وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ
اور جب اس لڑکی سے جو زندہ گاڑی گئی تھی پوچھا جائے گا
وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ....: ’’الْمَوْءٗدَةُ‘‘وہ لڑکی جسے زندہ دفن کر دیا گیا ہو۔ جاہلیت میں بعض عرب عار سے بچنے کے لیے لڑکیاں زندہ دفن کر دیتے تھے کہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائیں یا کوئی ان کا داماد نہ بنے۔ بعض فقر کی وجہ سے ایسا کرتے تھے اور بعض تو فقر کی وجہ سے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو قتل کر دیتے تھے۔ ہندوستان کے راجپوتوں اور بعض دوسری قوموں میں بھی یہ رواج رہا ہے، آج کل برتھ کنٹرول کے نام سے حکومتیں منظم طریقے سے یہ کام کر رہی ہیں۔ چین میں شہروں میں ایک بچے اور دیہاتوں میں صرف دو بچوں کی اجازت ہے۔ چونکہ اکثر لوگوں کو لڑکے مرغوب ہوتے ہیں، اس لیے لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں کئی مائیں دودھ ہی نہیں پلاتیں اور اس طرح قتل کا ارتکاب کرتی ہیں۔ مسلمان ملکوں کے بعض حکمران بھی کفار کی ترغیب سے رزق کے وسائل کی کمی (املاق) کا بہانہ بنا کر تحدید نسل بلکہ مسلمانوں کی نسل کشی کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے ایسے طریقے پھیلا رہے ہیں جن سے بچہ پیدا ہونے کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے۔ مثلاً جرثومے اور بیضے کی رگ ہی کاٹ دینا اور دوسرے ناقابل بیان طریقے اور یہ کام اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ کر رہے ہیں جس نے عزل (جماع کرتے ہوئے انزال کے وقت بیوی سے علیحدہ ہو جانے) کو بھی ناپسند فرمایا، حالانکہ عزل کی صورت میں حمل کا امکان رہتا ہے، کیونکہ منی کے جرثومے انزال سے پہلے بھی مذی کے ذریعے سے رحم میں داخل ہو سکتے ہیں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کا اظہار فرمایا کہ عزل کرو یا نہ کرو، جو بچہ پیدا ہونا ہے ہو کر رہے گا۔ اس کے باوجود ایک مرتبہ جب لوگوں نے آپ سے عزل کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ذٰلِکَ الْوَأْدُ الْخَفِيُّ وَھِيَ : ﴿وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ ﴾ [التکویر: ۸] )) [مسلم، النکاح، باب جواز الغیلۃ....: ۱۴۱ ؍۱۴۴۲ ] ’’یہ پوشیدہ طریقے کا زندہ دفن کرنا ہے اور یہ فعل اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وعید کے تحت آتا ہے کہ جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔‘‘ مقصد یہ ہے کہ عزل میں امکان حمل کے باوجود اس کے تسلسل کا نتیجہ نسل انسانی کی ہلاکت ہے۔ اس حدیث سے منع حمل کے دوسرے ظالمانہ طریقوں کی وعید خود بخود سمجھ میں آرہی ہے۔