سورة النسآء - آیت 83

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آجاتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر وہ اس خبر کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اپنے اختیار والوں کی طرف پہلے پہنچاتے تو ان کے تحقیق کرنے والے ان کا مقصد معلوم کرلیتے ہیں اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو سوائے تھوڑوں کے تم شیطان کے تابع ہوجاتے (ف ٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ:امن کی خبر یہ کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی، یا دشمن کا لشکر واپس چلا گیا، جس سے مسلمان بے فکر ہو کر تیاری کم کر دیں وغیرہ اور خوف کی خبر یہ کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کو شکست ہوئی، یا دشمن بہت بڑی تعداد میں حملہ آور ہونے والا ہے، جس سے مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے مختلف سرایا (جنگی دستے) لڑائی کے لیے بھیجتے رہتے تھے، اس لیے اس قسم کی افواہیں مدینہ میں اکثر پہنچتی رہتی تھیں، لیکن منافقین اور بے احتیاط قسم کے مسلمان بجائے اس کے کہ انھیں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے دار اصحاب تک پہنچائیں، از خود ان افواہوں کی تشہیر شروع کر دیتے، ان کے اسی طرزِ عمل کی یہاں مذمت کی جا رہی ہے۔ (فتح القدیر، قرطبی) يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ: اس کا مادہ ’’نَبْطٌ ‘‘ہے۔ ’’نَبْطٌ ‘‘وہ پانی ہے جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے، اس لیے ’’استنباط ‘‘ تحقیق اور بات کی تہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے، اسی طرح مخفی بات کی حقیقت معلوم اور ظاہر کرنے کو بھی ’’ نَبْطٌ ‘‘ اور ”اِسْتِنْبَاطٌ“ کہا جاتا ہے۔ کان کی گہرائی سے کوئی معدن نکالنے کو بھی ”اِسْتِنْبَاطٌ“ کہتے ہیں۔ ﴿ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ﴾ مسلمانوں سے کہا جا رہاہے کہ اگر امن یا خوف کی وہ خبر بلاتحقیق پھیلانے کے بجائے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے امراء کو پہنچاتے تو سب سے پہلے وہ غور و خوض اور تحقیق کر کے معلوم کرتے کہ خبر صحیح بھی ہے یا غلط، کیونکہ بلا تحقیق آگے بات کرنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ((كَفٰي بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَّا سَمِعَ )) [ مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : ۵ ]’’آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ سنے (بلاتحقیق) آگے بیان کر دے۔‘‘ پھر وہ ذمے دار حضرات فیصلہ کرتے کہ اس خبر کی اشاعت کرنی چاہیے یا نہیں، اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے، ورنہ روک دیتے۔ انفرادی زندگی میں عموماً اور اجتماعی زندگی میں خصوصاً اس ہدایت پر عمل نہایت ضروری ہے، ورنہ اس بے احتیاطی کے بے حد نقصانات ہو سکتے ہیں، بالخصوص جنگ کے ایام میں، جب خبریں اور افواہیں فوجی کارروائیوں سے بڑھ کر تاثیر رکھتی ہیں، خبروں کے محاذ کو بھی جنگ کا زبردست محاذ سمجھ کر اس کے مطابق معاملہ کرنا چاہیے۔ اِلَّا قَلِيْلًا: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ جو فرمایا : ’’ اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے‘‘ یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے رہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں۔ (موضح)