وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے چھڑایا کہ تم کو بڑی تکلیف دیتے تھے کہ تمہاری بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی (ف ٢) ۔
1۔ یہاں سے بنی اسرائیل پر کیے جانے والے انعامات اور انھیں دی جانے والی فضیلت کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ 2۔طبری نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرمایا ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے باہمی مشورہ کیا کہ بنی اسرائیل کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی اولاد میں انبیاء اور بادشاہ پیدا فرمائے گا (سو ان کا بندوبست ہونا چاہیے)، تو انھوں نے مشورہ سے متفقہ فیصلہ یہ کیا کہ ایسے آدمی مقرر کیے جائیں جن کے پاس چھریاں ہوں ، وہ بنی اسرائیل میں چکر لگاتے رہیں ، جہاں کوئی نو مولود لڑکا ملے اسے ذبح کر دیں ، انھوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب دیکھا کہ بنی اسرائیل کے بڑی عمر کے لوگ تو طبعی موت سے مر رہے ہیں اور بچے ذبح ہو رہے ہیں ، تو انھوں نے کہا اس طرح تو تم بنی اسرائیل کو فنا کر دو گے، پھر جو خدمت اور مشقت تمھاری جگہ وہ کرتے ہیں وہ تمھیں خود کرنا پڑے گی۔ اس لیے ایک سال ان کے بچے ذبح کرو اور ایک سال انھیں رہنے دو۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہارون علیہ السلام کے ساتھ اس سال حاملہ ہوئیں جس میں لڑکے ذبح نہیں کیے جاتے تھے، اس لیے انھوں نے انھیں بلا خوف جنم دیا اور آئندہ سال ہوا تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ امید سے ہوئیں ۔ ( طبری ) غالب گمان یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کا یہ قول اسرائیلی روایات سے ہو، مگر ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس کی سند ٹھیک ہے اور ہم اسے سچا کہتے ہیں نہ جھوٹا۔ عام طور پر یہاں فرعون کے خواب کا ذکر کیا جاتا ہے کہ اس نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص اس کی سلطنت ختم کرنے کا باعث ہو گا، اس لیے اس نے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، مگر اس کی کچھ حقیقت نہیں ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کی کثرت تعداد کی صورت میں ان کے غلبے سے خائف ہو کر یہ ظلم اختیار کیا تھا۔ آج کل بھی دنیا بھر کے کفار مسلمانوں کی آبادی بڑھنے سے سخت خائف ہیں اور لالچ اور دھمکی، ہر طریقے سے ان کی آبادی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 3۔ یہ واقعہ عاشورا ( دس محرم) کے دن پیش آیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے پوچھا : ’’یہ کیا ہے ؟‘‘ انھوں نے کہا، یہ ایک عظیم دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو موسیٰ علیہ السلام نے اس کا روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا : ’’میں تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام پر حق رکھتا ہوں ۔‘‘ چنانچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم دیا۔ [ بخاری، الصوم، باب صوم یوم عاشوراء : ۲۰۰۴ ] پھر رمضان کے روزے فرض ہونے پر عاشورا کا روزہ نفل قرار دے دیا گیا۔ وفات سے پہلے آپ نے فرمایا : ’’آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو( محرم) کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ مگر آپ اس سے پہلے فوت ہو گئے۔ [ مسلم، الصیام، باب أی یوم یصام فی عاشوراء : ۱۱۳۴ ] 4۔ ”يُذَبِّحُوْنَ“ باب تفعیل کی وجہ سے ’’بری طرح ذبح کرتے تھے‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ 5۔ ”بَلَآءٌ“ امتحان اور آزمائش، خواہ مصیبت کے ساتھ ہو یا انعام کے ساتھ۔ ”وَ فِيْ ذٰلِكُمْ“ میں یہ اشارہ ذبح کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور نجات کی طرف بھی۔ ذبح کیا جانا مصیبت تھی اور نجات انعام۔