سورة المرسلات - آیت 1

وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

قسم ہے ان ہواؤں کی جو چھوڑی گئی ہیں بڑی نرمی سے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا ....: ’’ الْمُرْسَلٰتِ ‘‘ یہ ’’اَلرِّيَاحُ‘‘ کی صفت ہے جو محذوف ہے، وہ ہوائیں جو چھوڑی گئی ہیں، بھیجی گئی ہیں۔ ’’عُرْفًا ‘‘ یہ ’’نُكْرٌ‘‘ کی ضد ہے، جانی پہچانی چیز، بھلائی۔ گھوڑے کی گردن کے بالوں اور مرغ کی کلغی کو بھی ’’عُرْفٌ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ایک سطر میں یکے بعد دیگرے ہوتی ہیں،اس لیے ان کی مشابہت سے پے در پے آنے والی چیزوں پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً : ’’جَاؤُوْا عُرْفًا وَاحِدًا‘‘ ’’وہ سب پے در پے آگئے۔‘‘ ’’ عُرْفًا ‘‘ کا معنی اگر جانی پہچانی چیز کریں تو اس سے پہلے ’’باء‘‘ مقدر ہوگی : ’’أَيْ وَالْمُرْسَلَاتِ بِالْعُرْفِ‘‘ ’’یعنی ان ہواؤں کی قسم جو جانے پہچانے معمول کے مطابق چھوڑی جاتی ہیں!‘‘ اگر اس کا معنی بھلائی کریں تو اس سے پہلے ’’لام‘‘ مقدر ہو گا اور یہ مفعول لہ ہو گا : ’’أَيْ وَالْمُرْسَلَاتِ لِلْعُرْفِ‘‘ ’’یعنی ان ہواؤں کی قسم جنھیں (لوگوں کی ) بھلائی کے لیے چھوڑا جاتا ہے!‘‘ اور اگر معنی پے در پے کریں تو ’’ عُرْفًا ‘‘ حال ہو گا، یعنی ’’ان ہواؤں کی قسم جو پے در پے چھوڑی جاتی ہیں!‘‘ تینوں معنی درست ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو بعد میں مذکور ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ صفات والی ہواؤں میں زبردست شہادت ہے کہ قیامت جس کا وعدہ دیا جاتا ہے، ضرور آنے والی ہے۔ آپ دیکھیں! ہوائیں کبھی نرم رفتار سے چلتی ہیں، پھر کبھی تند و تیز ہو کر آندھیاں بن جاتی ہیں، پھر بادلوں کو اٹھا کر لاتی اور پھیلا دیتی ہیں، پھر ان کے قطعے جدا جدا کرکے بارش برسانا شروع کر دیتی ہیں اور کہیں ایک قطرہ برسائے بغیر ہی آگے گزر جاتی ہیں۔ ہواؤں کے یہ مختلف اطوار کہ کبھی آہستہ چلنا، کبھی تند و تیز آندھی بن جانا، پھر بادلوں کو اٹھانا، انھیں پھیلا کر برسانا اورمنتشر کر دینا، کہیں خوف ناک طوفان کی صورت میں عذاب بن کر آنا وغیرہ، یہ سب کچھ دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔ اسی طرح یہ ہوائیں دلوں میں اللہ کے ذکر کا القا کرتی ہیں اور اللہ کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں، کبھی ترغیب کے ساتھ اور کبھی ترہیب کے ساتھ۔ ہوائیں اگر خوشگوار اور نفع بخش ہیں تو اللہ کی نعمت ہیں اور ان کا اثر بندے پر یہ پڑنا چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے اور اپنے عمل کی کوتاہی کا عذر پیش کرے اور اگر اس کے برعکس خوف ناک طوفان اور بجلیوں کی صورت میں ہیں تو ان کا اثر بندے پر یہ ہونا چاہیے کہ وہ ڈر کر گناہوں سے توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ان مختلف اطوار والی ہواؤں کو پیدا کرنے والے اور ان کا بندوبست کرنے والے پروردگار کے لیے قیامت برپا کرنا اور تمام فوت شدہ لوگوں کو زندہ کر کے ان سے باز پرس کرنا کون سا مشکل کام ہے؟