قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ
وہ کہیں گے کہ ہم نمازیوں میں نہ تھے (ف 3)
1۔ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ ....: جہنمی اپنے جہنم میں جانے کے چار اسباب بیان کریں گے، پہلا یہ کہ وہ نماز ادا کرنے والوں میں شامل نہ ہوئے، دوسرا یہ کہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، تیسرا یہ کہ دین کی باتوں کو مذاق کرنے اور جھٹلانے کے لیے وہ مجلسوں میں بیٹھ کر فضول بحث کیا کرتے تھے اور چوتھا یہ کہ وہ روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے : (1) نماز ایمان کے ان ارکان میں سے ہے جن کے بغیر کوئی شخص اسلامی برادری میں شامل ہی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اسے ’’ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ‘‘ والی اخوتِ دینی حاصل ہو سکتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ﴾ [التوبۃ: ۱۱] ’’پھر اگر وہ (کفر سے) توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں تمھارے بھائی ہیں۔‘‘ بلکہ جب تک کوئی شخص ایمان قبول کرکے صلوٰۃ و زکوٰۃ ادا نہ کرے اس سے جنگ کا حکم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی يَشْهَدُوْا أَلَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ يُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَائَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَ حِسَابُهُمْ عَلَي اللّٰهِ )) [ بخاري، الإیمان، باب: ﴿ فإن تابوا وأقاموا الصلاۃ....﴾ : ۲۵ ] ’’مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ یہ کام کریں تو انھوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ (2) جہنمیوں کا یہ اقرار کہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں مساکین کو کھانا کھلانا کس قدر ضروری ہے۔ (3) اللہ کی آیات سے مذاق کرنا اور ان کے متعلق فضول بحث کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی مسلمان اس کا ارتکاب کرے تو وہ بھی کافر ہو جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ (65) لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ ﴾ [ التوبۃ : 66،65 ] ’’اگر آپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے ہم تو صرف بحث اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دے کیا اللہ کے ساتھ، اس کے رسول اور اس کی آیات کے ساتھ ہی تمھیں ہنسی مذاق کرنا تھا؟ بہانے مت بناؤ، یقیناً تم ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے ہو۔‘‘ (4)قیامت پر یقین ایمان کی بنیادی شرط ہے، اس کے بغیر آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتا۔ حدیث جبریل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف یہ فرمائی : (( أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰهِ وَ مَلَائِكَتِهِ وَ كُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَ شَرِّهِ )) [ مسلم، الإیمان، باب بیان الإیمان والإسلام....:۸ ] ’’(ایمان یہ ہے) کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لاؤ اور تقدیر پر، خواہ اچھی ہو یا بری، ایمان لاؤ۔‘‘ 2۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کفار اسلام کے تفصیلی احکام کے مخاطب نہیں ہیں اور نہ اللہ کی طرف سے انھیں اسلام کے احکام مثلاً نماز و زکوٰۃ وغیرہ بجا لانے کا حکم ہے، بلکہ ان سے مطالبہ ایمان کا ہے اور مؤاخذہ بھی اسی پر ہو گا، کیونکہ ایمان کے بغیر وہ کوئی عمل کریں بھی تو بے فائدہ ہے، مگر ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار کے جہنم میں جانے کا باعث اعمال کا ترک بھی ہے اور وہ اسلام کے تمام اعمال بجا لانے کے مکلف ہیں۔ ایمان لانے سے پہلے انھیں اعمال سے مستثنیٰ قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ وضو کے بغیر چونکہ نماز قبول نہیں ہوتی، اس لیے جب تک کوئی شخص وضو نہ کرلے وہ ’’ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ‘‘ کامخاطب ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بے وضو شخص ’’ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ‘‘ کا مخاطب ہے اور اسے حکم ہے کہ وضو کرکے نماز ادا کرے، اسی طرح کفار بھی ’’ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ‘‘ اور دوسرے تمام احکام کے مخاطب ہیں اور انھیں حکم ہے کہ ایمان لا کر یہ تمام احکام ادا کریں۔