عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ
اس پر انیس فرشتے نگہبان ہیں
1۔ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ....: اللہ تعالیٰ نے جب جہنم پر مامور اشخاص کی تعداد انیس (۱۹) بتائی تو ساتھ ہی اس ٹھٹھے اور مذاق کا جواب بھی ذکر کر دیا جو کافر اڑا سکتے تھے اور انھوں نے اڑایا بھی کہ انیس (۱۹) شخص ہم ہزاروں لاکھوں کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ فرمایا، ہم نے جہنم پر جن لوگوں کو مقرر کیا ہے وہ فرشتے ہیں اور فرشتہ تو ایک بھی ہو تو تم سب کے لیے کافی ہے۔ 2۔ جہنم کے فرشتوں کی تعداد بتانے کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ کافروں کی آزمائش ہو جائے گی، انھوں نے اپنے خبث باطن کا جو اظہار کرنا ہے کرلیں گے، جومذاق اڑانا ہے اڑا لیں گے اور اہلِ کتاب کو اس کے حق ہونے کا یقین ہو جائے گا، کیونکہ یہ تعداد ان کی کتاب کے مطابق ہے، یا وہ اپنی کتابوں کی وجہ سے فرشتوں کی غیر معمولی قوتوں کو جانتے ہیں اور ایمان والوں کا ایمان مزید بڑھ جائے گا اور اہلِ کتاب اور ایمان والوں کو اس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں رہے گا۔ ہاں کفار اور وہ لوگ جن کے دلوں میں حسد اور بغض کا مرض ہے، یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ مثال بیان کرنے سے کیا مقصد ہے؟ فرمایا دیکھ لو ایک ہی بات ہے، مگر کسی کے حصے میں اس سے انکار آیا اور کسی کو ایمان و یقین کی دولت نصیب ہوگئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے مچھر اور اس سے بڑھ کر کسی چیز کی مثال بیان کرنے پر ایمان والے تو اس کے حق ہونے کی تصدیق کریں گے اور کافر یہی کہیں گے کہ اس قسم کی مثال بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصد ہے؟ (دیکھیے بقرہ : ۲۶) اور اہل ایمان تو قرآن کی محکم و متشابه ہر قسم کی آیات پر بلاچون و چرا ایمان لائیں گے، مگر جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ جوئی کے لیے متشابهات کے پیچھے لگے رہیں گے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۷)۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ جو بات اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے آئے اس پر ہم یقین کریں اور ایمان لائیں خواہ اس کی حکمت ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو، جب یہ اعتراض فضول ہے کہ انسان کو مٹی سے کیوں بنایا؟ جنوں کو آگ سے کیوں بنایا؟ بچہ ماں کے پیٹ میں نو ماہ کیوں رہتا ہے؟ انڈے سے بچہ اکیس دنوں میں کیوں نکلتا ہے؟کچھوے کی عمر طویل کیوں ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ، تو یہ اعتراض کیوں کہ جہنم پر انیس (۱۹) فرشتے کیوں مقرر کیے ہیں؟ ایمان والوں کے پاس اس قسم کی تمام باتوں کا ایک ہی جواب ہے کہ مالک کی مرضی ہے جو چاہے کرے۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے جہنم پر مامور فرشتوں کی تعداد انیس ہونے کی حکمت اپنی عقلی موشگافیوں سے بیان کی ہے جو سراسر تکلف ہے۔ یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اہل ایمان کا ایمان آیاتِ الٰہی سننے سے بڑھ جاتا ہے۔ تعجب ہے ان لوگوں پر جو قرآن کی واضح آیات کے باوجود کہتے ہیں کہ ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے نہ کم۔ اب قرآن کی صاف آیات کے بعد انھیں قائل کرنے کے لیے کون سی چیز پیش کی جائے۔ 3۔ وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ: یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کارکنوں کی کمی ہے، یعنی فرشتے تو اس کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں، اللہ کے پاس اتنے لشکر ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی انھیں جانتا ہی نہیں، پھر ان لشکروں میں سے ہر ایک کی تعداد بھی وہی جانتا ہے۔ حدیث معراج میں ساتویں آسمان کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((فَرُفِعَ لِيَ الْبَيْتُ الْمَعْمُوْرُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيْلَ فَقَالَ هٰذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُوْرُ يُصَلِّيْ فِيْهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوْا لَمْ يَعُوْدُوْا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ )) [ بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ....: ۳۲۰۷ ] ’’پھر بیتِ معمور میرے سامنے ظاہر کیا گیا، میں نے جبریل سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ بیتِ معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں، جب نکل جاتے ہیں تو اپنے آخری وقت تک دوبارہ یہاں نہیں آسکتے۔‘‘ ’’ وَ مَا هِيَ ‘‘ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں ’’ سَقَرَ ‘‘ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔