إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا
بے شک آدمی جی کا کچا پیدا کیا گیا ہے
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا ....: یعنی انسان میں پیدائشی طور پر یہ کمزوری رکھی گئی ہے کہ وہ تھڑدلا ہے، بے صبرا ہے۔ تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جاتا ہے، مال یا کوئی اور نعمت ملتی ہے تو روک کر بیٹھ جاتا ہے اور حق داروں کو نہیں دیتا، مگر یہ کمزوری ایسی نہیں کہ انسان اس پر قابو نہ پا سکے۔ اہلِ ایمان نہ مصیبت میں گھبراتے ہیں اور نہ خوش حالی میں اتراتے ہیں۔ صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَ إِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ )) [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹ ] ’’مومن کا معاملہ عجیب ہے کہ اس کے سب کام ہی (اس کے لیے) خیر ہیں اور مومن کے علاوہ یہ چیز کسی کو حاصل نہیں، (اس طرح کہ) اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے، سو وہ اس کے لیے خیر ہوتی ہے اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، سو وہ ( بھی) اس کے لیے خیر ہوتی ہے۔‘‘ مگر اس کے لیے کوشش یقیناً کرنا پڑتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَمَنْ يَّسْتَعِفَّ يُعِفَّهُ اللّٰهُ وَ مَنْ يَّسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللّٰهُ وَ مَنْ يَّتَصْبِرْ يُصَبِّرْهُ اللّٰهُ )) [ مسلم، الزکاۃ، باب فضل العفف والصبر....: ۱۰۵۳ ] ’’جو شخص سوال سے بچے گا اللہ اسے بچا لے گا، جو اللہ سے غنا مانگے گا اللہ اسے غنی کر دے گا اور جو صبر کی کوشش کرے گا اللہ اسے صابر بنا دے گا۔‘‘