سورة الحاقة - آیت 44

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بھی از خود اپنی طرف سے بنالاتا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل....: ان آیات میں کفار کی اس بات کا ردّ ہے کہ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے بنا کر اللہ کے ذمے لگا دی ہیں۔ فرمایا جب یہ ثابت ہوگیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ کی کہی ہوئی ہر بات اللہ کی بات ہے تو اب اگر اللہ تعالیٰ انھیں اپنے ذمے باتیں لگانے دے اور اس پر انھیں کچھ نہ کہے تو وہ سب باتیں اللہ کی باتیں سمجھی جائیں گی، اللہ تعالیٰ اس کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ فرمایا، اگر ہمارا یہ سچا رسول کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمے لگا دیتا تو اس جعل سازی کے جرم میں ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے اور کوئی شخص رستے میں رکاوٹ نہ بن سکتا۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے غلط استدلال کیا ہے کہ اگر کسی مدعی نبوت کی جان کی رگ دعوائے نبوت کرتے ہی نہ کاٹ دی جائے تو یہ اس کے نبی ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ اس آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ سچے نبی کے بارے میں ہے، نبوت کے جھوٹے مدعیوں کے بارے میں نہیں ہے۔ جھوٹے مدعی تو نبوت ہی نہیں خدائی تک کے دعوے کرتے ہیں اور مدتوں زمین پر دندناتے رہتے ہیں، یہ ان کے سچے ہونے کا ثبوت نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ جس طرح بادشاہ کسی شخص کو کسی منصب پر مقررکرکے سند وغیرہ دے کر کسی طرف روانہ کرتے ہیں، اب اگر وہ کوئی بات جھوٹ گھڑ کر بادشاہ کے ذمے لگا دے تو فوراً بادشاہ کی طرف سے اس کی تردید کی جاتی ہے اور ایسا کرنے والے کو سخت سزا دی جاتی ہے، لیکن اگر کوئی سڑک کوٹنے والا مزدور یا صفائی کرنے والا بھنگی اعلان کرتا پھرے کہ بادشاہ نے یہ حکم جاری کیا ہے تو نہ سننے والے اس کی پروا کرتے ہیں اور نہ حکومت فوراً اس سے تعرض کرتی ہے۔ ہمارے زمانے کے دجال قادیانی کا اس آیت سے استدلال اور خود اس کے کلام میں سے اس کا ردّ دیکھنے کے لیے تفسیر ثنائی ملاحظہ فرمائیں ۔ [ فَإِنَّہٗ کَفٰی وَ شَفٰی رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی رَحْمَۃً وَاسِعَۃً ] ’’ تَقَوَّلَ ‘‘ کا معنی ہے، کسی کے ذمے وہ بات لگانا جو اس نے نہیں کہی۔ ’’ الْاَقَاوِيْل ‘‘ ’’أُقْوُوْلَةٌ‘‘ کی جمع ہے، جس طرح ’’أُعْجُوْبَةٌ‘‘ اور ’’أُضْحُوْكَةٌ‘‘ کی جمع ’’أَعَاجِيْبُ‘‘ اور ’’أَضَاحِيْكُ‘‘ ہے۔ ’’ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ‘‘ سے مراد یا تو یہ ہے کہ ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی گردن کی رگ کاٹ دیتے۔ یہ سزا کی ہولناکی دکھانے کے لیے قتل کی تصویر کشی ہے، کیونکہ جب قتل کرنے والا کسی مجرم کو تلوار مارنے لگتا ہے تو اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اس کی رگِ جاں کاٹ دیتے۔ بعض مفسرین نے ’’اَلْيَمِيْنُ‘‘ کا معنی قوت کیا ہے، یعنی ہم اسے پوری قوت سے پکڑ کر اس کی رگِ جاں کاٹ دیتے۔ عرب کے محاورہ میں یہ معنی بھی استعمال ہوتا ہے، مگر یہ معنی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا انکار کر دینا درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلْ يَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ [ المائدۃ : ۶۴ ] ’’بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كِلْتَا يَدَيْ رَبِّيْ يَمِيْنٌ مُبَارِكَةٌ )) [ترمذی، تفسیر القرآن، باب : ۳۳۶۸۔ مسلم : ۱۸۲۷] ’’میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں اور برکت والے ہیں۔‘‘ البتہ اس بات میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں جیسے نہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ﴾ [ الشورٰی : ۱۱] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘ بلکہ اس طرح ہیں جس طرح اس کی شان کے لائق ہیں۔ ’’ الْوَتِيْنَ ‘‘ گردن کی وہ رگ جو دل سے ملتی ہے، جس کے کٹنے سے آدمی فوراً مر جاتا ہے۔(اشرف الحواشی)