فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ
سو جو تم دیکھتے ہو ۔ میں اس کی قسم کھاتا ہوں
فَلَا اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ ....: کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی شاعر کہتے، کبھی کاہن ، کبھی یہ کہتے کہ اس نے یہ کلام اپنے پاس سے بنا کر اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا ہے، کبھی کہتے کسی دوسرے آدمی نے اسے بنا کر دیا ہے، کبھی کہتے یہ پریشان خواب و خیال ہیں، کبھی آپ کو دیوانہ قرار دیتے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۵)، صافات (۳۶)، طور (۲۹) اور سورۂ نحل (۱۰۳) ان تمام باتوں کا اللہ تعالیٰ نے الگ الگ جواب بھی دیا ہے، مگر ان آیات میں ایک ہی جگہ دلیل کے ساتھ سب باتوں کی تردید فرما دی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَلَا اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ (38) وَ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ ﴾ ’’پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں اس کی جسے تم دیکھتے ہو! اور جسے تم نہیں دیکھتے!‘‘ قسم سے پہلے ’’لاَ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ درست نہیں۔ قسم کا مقصد کسی بات کی تاکید ہوتا ہے اور عام طور پر قسم اس بات کے لیے دلیل اور شاہد ہوتی ہے، یہاں جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے اس میں خالق و مخلوق، ماضی، حال و مستقبل، زمین و آسمان اور دنیا و آخرت، غرض سب کچھ آجاتا ہے۔ قرآن میں مذکور قسموں میں یہ سب سے جامع قسم ہے، یعنی جو کچھ تم دیکھتے ہو اور جو نہیں دیکھتے، میں ان سب کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔