سورة القلم - آیت 28

قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان کا پچھلا بولا کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ....: ’’ اَوْسَطُهُمْ ‘‘ کا معنی ان کے درمیان والا بھی ہے اور ان میں سے افضل بھی، جیسے فرمایا : ﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا﴾ [ البقرۃ : ۱۴۳ ] ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا۔‘‘ تو ان میں سے جو بہتر تھا اس نے انھیں ان کے خبیث ارادے کے وقت نصیحت کی تھی ’’ لَوْ لَا تُسَبِّحُوْنَ ‘‘ کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے اور اس بری نیت سے توبہ کیوں نہیں کرتے؟ مگر انھوں نے اس کی بات نہیں مانی تھی، اب اس نے انھیں وہ بات یاد دلائی۔ ’’ لَوْ لَا تُسَبِّحُوْنَ ‘‘ کا معنی بعض نے یہ کیا ہے کہ ’’تم ان شاء اللہ کیوں نہیں کہتے؟‘‘ مگر سارا پھل توڑنے کا ارادہ کر کے ’’ان شاء اللہ‘‘ پڑھ بھی لیتے تو کچھ فائدہ نہ تھا، اس لیے یہی معنی درست معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کہا تم اپنے رب کو یاد کیوں نہیں کرتے، اس کا ہر عیب سے پاک ہونا خصوصاً اس قسم کے بخل سے اور مسکینوں کو محروم کرنے کے ارادے سے پاک ہونا کیوں یاد نہیں کرتے کہ تم بھی اس بخل اور کمینگی سے بچ جاؤ۔ اس معنی کے درست ہونے کا ایک قرینہ یہ ہے کہ جب ان کے بھائی نے انھیں اپنی بات یاد دلائی تو انھوں نے ’’ سُبْحٰنَ رَبِّنَا‘‘ کہہ کر اس وقت ’’سبحان اللہ ‘‘نہ کہنے کی تلافی کی کوشش کی۔