سورة القلم - آیت 2

مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کہ تو اپنے رب کی نعمت فضل سے دیوانہ (ف 2) نہیں ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَا اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ....: اللہ تعالیٰ نے قلم کی اور اس چیز کی قسم کھائی جو لکھنے والے لکھتے ہیں اور اس کے جواب میں تین باتیں ارشاد فرمائیں، پہلی یہ کہ آپ اللہ کے فضل سے مجنون( دیوانے) نہیں ہیں، دوسری یہ کہ آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو منقطع ہونے والا نہیں اور تیسری یہ کہ یقیناً آپ خلق عظیم پر ہیں۔ قسم جواب قسم کی تاکید کے لیے کھائی جاتی ہے اور عام طور پر اس کے لیے شاہد اور دلیل ہوتی ہے، یہاں قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ قلم اور قلم سے لکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کفار کا یہ کہنا غلط ہے کہ آپ دیوانے ہیں۔ تقدیر کے قلم نے لوحِ محفوظ میں ہزاروں سال پہلے آپ کی قسمت میں جو صدق و امانت، نبوت و رسالت اور دنیا و آخرت میں کامیابی اور عزت و رفعت لکھ دی ہے اور پہلے صحائف میں آپ کے متعلق جو پیش گوئیاں اور فضائل لکھے ہوئے ہیں، کراماً کاتبین آپ کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھ رہے ہیں اور کسی بھی شخص کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے، قرآن مجید میں جو عقائد، احکام، قصص اور گزشتہ و آئندہ کی خبریں لکھی ہوئی ہیں، جن کا ایک شوشہ بھی نہ غلط ثابت ہوا ہے نہ ہو گا اور جس کی مثل چھوٹی سے چھوٹی سورت کوئی شخص پیش کر سکا ہے نہ کر سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ، آپ کے افعال و احوال اور آپ کا بعض مواقع پر خاموش رہنا، یہ سب کچھ جو یاد کرنے والوں نے یاد کیا اور لکھنے والوں نے لکھا ہے اور قیامت تک یاد کرتے اور لکھتے چلے جائیں گے، اگر کوئی ان تمام لکھی ہوئی چیزوں پر غور کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے بڑے بڑے عقل مندوں کی تحریروں کا موازنہ کرے اور سارے جہاں کے دیوانوں، یاوہ گو شاعروں، گپ بازوں اور افسانہ نویسوں کی لکھی ہوئی فضولیات کا بھی جائزہ لے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ لوحِ محفوظ میں جس کی قسمت میں اتنی سعادتیں لکھ دی گئی ہیں،جس کی پیش گوئیاں پہلے آسمانی صحائف میں لکھی ہوئی ہیں، جو اُمی ہونے کے باوجود قرآن جیسی عظیم کتاب لے کر آیا ہے، جس کے اقوال و احوال اور افعال و تقریرات میں سے ہر چیز بے حد محبت و عقیدت سے لکھی گئی ہے اور قیامت تک محفوظ ہے اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت کی روشنی مہیا کرتی ہے، اس کے متعلق کفار کا کہنا ’’ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ ‘‘ کہ آپ دیوانے ہیں (دیکھیے حجر: ۶) بالکل غلط ہے، آپ اللہ کے فضل سے ہرگز دیوانے نہیں ہیں۔ کفار کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ زمانے کی گردش کے ساتھ آپ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ (طور :۳۰) اور یہ کہ آپ ابتر ہیں (کوثر :۳) اور یہ کہ آپ کے بعد آپ کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔ نہیں، بلکہ یقین رکھو کہ آپ کے لیے وہ اجر ہے جو کبھی منقطع نہیں ہو گا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی امت کے اعمال حسنہ بھی آپ کے نامۂ اعمال میں لکھے جاتے رہیں گے، کیونکہ وہ آپ کی تعلیم ہی سے کیے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ دَلَّ عَلٰی خَيْرٍ فَلَهٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ.... : ۱۸۹۳ ] ’’جو کسی نیکی کی طرف رہنمائی کرے تو اسے وہ نیکی کرنے والے کی طرح اجر ملے گا۔‘‘اور کفار کا آپ کے متعلق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آپ شاعر ہیں یا کاہن ہیں یا نعوذ باللہ کذاب یا متکبر ہیں۔ (دیکھیے قمر :۲۵) نہیں، بلکہ آپ خلق عظیم پر ہیں۔ ان تینوں آیات میں مخاطب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر اصل میں یہ باتیں کفار کو سمجھائی جا رہی ہیں۔ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ:’’ خُلُقٍ ‘‘ کے لفظی معنی ہیں وہ عادتیں جو پیدائشی طور پر انسان میں پائی جاتی ہیں، یعنی وہ خصلتیں جو طبیعت میں پختہ ہو جائیں اور اس طرح عادت بن جائیں کہ بغیر سوچے سمجھے خود بخود سرزد ہوتی رہیں ’’خلق‘‘ کہلاتی ہیں۔ عام طور پر خلق سے مراد لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنا اور انھیں خندہ پیشانی سے ملنا لیا جاتا ہے، اگرچہ خلق کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے مگر یہ خلق کا محدود مفہوم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ’’ خُلُقٍ عَظِيْمٍ ‘‘ کی تفسیر دین سے کی ہے۔(طبری) اور عائشہ رضی اللہ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : (( كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ )) [ مسند أحمد : 6؍91، ح : ۲۴۶۰۱۔ مسلم : ۷۴۶ ] ’’آپ کا خلق قرآن تھا۔‘‘ یعنی ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر کے مطابق دین اسلام کی ہر بات پر آپ کا اس طرح عمل تھا جیسے وہ آپ کی طبعی عادت ہو اور بقول عائشہ رضی اللہ عنھا قرآن مجید آپ کا خلق یعنی آپ کی طبیعت بن گیا تھا۔ وہ سب کچھ جو قرآن میں ہے آپ سے بلا تکلف خود بخود عمل میں آتا تھا، جیسے وہ آپ کی طبعی خصلت ہے۔ قرآن میں جو حکم دیا گیا اس پر آپ کا عمل تھا اور جس سے منع کیا گیا اس سے مکمل اجتناب تھا، جو خوبیاں اختیار کرنے کی تلقین کی گئی آپ ان سے پوری طرح آراستہ تھے اور جن صفات کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔ الغرض، آپ میں تمام انسانی خوبیاں جمع ہو گئی تھیں، مثلاً شرفِ نسب، کمال عقل، درستی فہم، کثرتِ علم، شدتِ حیا، کثرتِ عبادت، سخاوت، صدق، شجاعت، صبر، شکر، مروت، دوستی و محبت، میانہ روی، زہد، تواضع، شفقت، عدل، عفو، برداشت، صلہ رحمی، حسنِ معاشرت، حسنِ تدبیر، فصاحتِ لسان، قوتِ حواس، حسنِ صورت و غیرہ، جیسا کہ آپ کی زندگی کے حالات و واقعات میں مذکور ہے۔