وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ
اور ان چراغوں کو شیاطین کے لئے پھینک مار بتایا اور ان کے لئے دوزخ کا عذاب تیار کیا ہے
وَ لَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ....: ’’ الدُّنْيَا ‘‘ ’’دَنَا يَدْنُوْ‘‘ میں سے ’’أَدْنٰي‘‘ کی مؤنث ہے، سب سے قریب۔ اگرچہ سات آسمانوں میں سے ہر آسمان خالق کی کاریگری کا عظیم الشان نمونہ ہے، مگر زمین کے سب سے قریب آسمان کی زینت و حفاظت کا جو اہتمام ہم نے کیا ہے وہ توکچھ کچھ تمھیں بھی نظر آرہا ہے، اس کے لیے تو کسی خاص آلے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ستاروں کے تین فائدے بیان فرمائے ہیں، پہلا فائدہ زینت ہے، رات کو چھوٹے بڑے لاتعداد ستاروں کے ساتھ آسمان جس قدر مزین ہوتا ہے اور حسین و جمیل نظر آتا ہے اگر ستارے نہ ہوتے تو اتنا ہی بدصورت دکھائی دیتا اور بے زیب ہوتا۔ دوسرا فائدہ روشنی ہے جو ’’مَصَابِيْحُ‘‘ (چراغوں) کے لفظ سے معلوم ہو رہا ہے۔ اگر یہ چراغ نہ ہوتے تو ہر رات انتہائی تاریک ہوتی۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ان ستاروں کے ذریعے سے ان شیطانوں کو مار بھگایا جاتاہے جو فرشتوں کی باتیں سن کر کاہنوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ لوگوں کو غیب دانی کے دعویٰ سے گمراہ کر سکیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ صافات (۶ تا ۱۰) کی تفسیر۔ چو تھا فائدہ دوسری جگہ بیان فرمایا : ﴿ وَ بِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ﴾ [ النحل : ۱۶ ] ’’اور ستاروں کے ساتھ وہ راستہ معلوم کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ستارے بحر و بر میں راستہ اور سمت معلوم کرنے کے کام آتے ہیں۔ ان کے علاوہ ستاروں میں سعادت یا نحوست سمجھنا یا انھیں کسی اختیار کا مالک سمجھنا شرک ہے۔