وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر تم ان دونوں (میاں بیوی) کی مخالفت درمیانی سے ڈرتے ہو تو ایک پنچ مرد کے کنبے میں سے اور ایک پنچ عورت کے کنبے میں سے مقرر کرو اور اگر یہ دونوں ان میں صلح کا ارادہ کریں گے تو خدا ان میں ملاپ کر دیگا ، بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے (ف ٢)
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا:پہلے صرف عورت کی طرف سے نشوز کا ذکر تھا اب اگر دونوں کی طرف سے نفرت اور مخالفت کا سلسلہ چل نکلے اور جدائی کا اندیشہ ہو تو حاکم کو چاہیے کہ میاں بیوی دونوں کی طرف ان کے خاندان کا ایک ایک سمجھدار آدمی بطور حکم (پنچ یا منصف) مقرر کر دیں، اگر وہ دونوں اصلاح کرانے میں مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا۔ اگر اصلاح کی کوئی صورت نہ بنے تو کیا انھیں علیحدگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟بعض علماء نے فرمایا کہ اگر میاں بیوی دونوں اسے صلح یا جدائی کا اختیار دیں کہ تم جو فیصلہ کرو ہمیں منظور ہو گا تو اسے علیحدگی کے فیصلے کا بھی اختیار ہے اور بعض نے فرمایا کہ اگر وہ حاکم جس نے اسے حکم مقرر کیا ہے اسے صلح یا جدائی دونوں کے فیصلے کا اختیار دیتا ہے تو اسے علیحدگی کے فیصلے کا اختیار ہے ورنہ نہیں۔ مگر جمہور علماء کا کہنا ہے کہ حکم مقرر کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ حکم دونوں فریقوں کے معاملات کا جائزہ لے کر صلح یا تفریق کا جو فیصلہ کر دیں نافذ ہو گا۔ اس کے لیے میاں بیوی یا حاکم کے اسے الگ اختیار دینے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں زیادہ زور موافقت کرانے کی کوشش پر دیا گیا ہے۔