سورة التحريم - آیت 10

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ نے کافروں کے لئے ایک مثال بیان کی ہے وہ نوح کی عورت اور لوط کی عورت کی مثال ہے کہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں ۔ سو ان عورتوں نے ان سے جوی کی پس وہ دونوں بندے ان عورتوں سے خدا کا کچھ عذاب نہ ہٹا سکے ۔ اور کہا گیا کہ اور جانے والوں کے ساتھ آگ میں چلی (ف 1) جاؤ

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ....: کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کے حکم کے بعد کفر کی نحوست اور ایمان کی برکت بیان فرمائی کہ قیامت کے دن کافر کو کسی مسلمان کے ساتھ کسی طرح کی قرابت کام نہیں آئے گی، حتیٰ کہ اگر پیغمبر کی بیوی کافر ہے تو وہ پیغمبر اسے بھی جہنم میں جانے سے نہیں بچا سکے گا۔ اس سے پہلے قرآن مجید میں نوح علیہ السلام کے بیٹے اور ابراہیم علیہ السلام کے والد کی صورت میں نسبی قرابت کی مثالیں گزر چکی ہیں۔ یہاں نوح علیہ السلام کی بیوی اور لوط علیہ السلام کی بیوی کو کافر لوگوں کی مثال کے طور پر ذکر فرمایا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ قصہ ازواج مطہرات کو سنایا گیا ہے، مگر یہ بات غلط اور بے دلیل ہے، کیونکہ اس آیت میں کافر عورتوں کا ذکر ہے جن کے کفر کی وجہ سے ان کے خاوند ان کے کچھ کام نہ آ سکے اور انھیں آگ میں داخل کر دیا گیا۔ امہات المومنین کو ان پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے جن کے ایمان، تقویٰ اور پاکیزگی کی شہادت قرآن مجید نے دی ہے!؟ حقیقت یہ ہے کہ ازواج مطہرات کا قصہ اوپر ختم ہو چکا ہے اور اس آیت کے مضمون کا تعلق ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَكُمْ ‘‘ کے ساتھ ہے، کیونکہ ایمان والوں کا اپنے ایمان والے قرابت داروں کو فائدہ پہنچانا قرآن مجید (طور : ۲۱) اور احادیثِ شفاعت میں ثابت ہے۔ 2۔ کتب تفاسیر میں نوح اور لوط علیھما السلام کی ان بیویوں کے نام مختلف آئے ہیں، مگر صحیح سند سے کوئی بھی ثابت نہیں۔ فَخَانَتٰهُمَا : اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خیانت کیا تھی اور نہ ہی کسی صحیح طریق سے اس خیانت کا ذکر آیا ہے۔ اگر اس کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور ذکر فرما دیتے، اسے مبہم رکھنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ بندہ ہر قسم کی خیانت سے ڈرتا رہے۔